Umair Khan Abad

Umair Khan Abad

Official Page

29/09/2023

ننھے قاری کی اقتداء میں نماز پڑھی۔

ظہر کی نماز کیلئے تاخیر سے مسجد پہنچا تو شمار ہی کے لوگ بیٹھے تھے؛ کچھ تلاوت کر رہے تھے، کچھ تسبیحات اور کچھ اپنے رب سے محو گفتگو تھے، شاید دعا کو ہاتھ اٹھے ہوں۔
میں نے تکبیر اولیٰ کے بعد ثناء پڑھی ہی تھی کہ قریب سے بچگانہ توتلی زبان سے الحمد کی قرات کی آواز آنے لگی؛یہ ننھا قاری خود بیٹھ کے مجھے نماز پڑھا رہا تھا۔ میں نماز کے جس رکن میں ہوتا وہی کا سبق اونچی آواز سے پڑھتا۔
ننھا قرات کرتے بسکٹ بھی کھا رہا تھا، جس کی وجہ پڑھنے میں خلل آتا اور بسکٹ پیکٹ کا شروع الگ سے۔

خیر سے میں نے چار رکعت پوری کی تو ننھے بچے سے بسکٹ پیکٹ کو کنارے رکھنے کی درخواست کی۔ قاری نے تعمیل کی، میں نے دوبارہ نیت باندھی اور قاری نے پھر بیٹھ کے مجھے نماز پڑھانا شروع کی۔

ننھا قاری مسلک سے آزاد تھا، اسے جتنا سبق آتا پڑھ لیتا، جہاں الفاظ نہ ہوتے وہاں خاموشی۔ ننھے قاری نے رکوع، سجدہ اور تشہد بھی اونچی آواز سے پڑھائی۔

بعد از نماز میں نے قاری صاحب کی تصویر بنائے اور پیار دے کر چلا گیا؛ کچھ دیر بعد مسجد کے سامنے سے گزر ہوا تو قاری صاحب پلر سے لپٹے اپنے مخصوص انداز میں آذان دے رہے تھے، میں دروازے میں کھڑا اس سے مسرور ہو رہا تھا اور میرے چہرے پہ مسرت مسکراہٹ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوٹا بھائی عبداللہ خان بھی ہمارے ساتھ مسجد جاتا ہے، لیکن وہ شرارت نہیں کرتا اور نہ ہی صف سے ہٹتا ہے۔
بچوں کو صاف ستھرا کر کے مسجد لایا کریں، گر وہ ہلکی پھلکی مستی یا باتیں کرے تو انہیں ڈانٹے مت؛ بلکہ بچوں کی پیاری شرارتوں سے محضوظ ہوا کریں۔

از قلم۔ عمیر خان آباد
Umair Khan Abad

22/08/2023

مکھیوں کا چھتہ۔ بشکریہ سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ۔
ABAD Pakistan

16/01/2023

ساسو ماں کا گلہ

خدا نے شاید ساسو ماں بارش یا ٹھنڈ میں سوجی، گاجر یا سوہن کا حلوہ کھلانے کیلئے پیدا کیں ہیں۔
پروجیکٹ کی وجہ سے تین دن گھر اور یونیورسٹی سے غیر حاضر رہا، آج واپسی ہوئی تو بہت سے کام ادھورے پڑے تھے۔اوپر سے جنوری کی ہڈی توڑ ٹھنڈ نے ناک میں دم کر رکھا ہے؛ سرد موسم میں بادل برسنے کیلئے بہانے ڈھونڈتے ہیں، بارش ایسی برس رہی تھی جیسے دو چار دنوں میں انہی اپنا کوٹہ پورا کرنا ہو۔

فجر کی نماز پڑھی، تلاوت کی اور پہلی فرصت میں یونیورسٹی پہنچا، لگاتار تین کلاسسز لی، دوپہر کو چھٹی کی اور پتوں سے گھنگال چناروں تلے بڑے قدموں سے گھر کو چلتا بنا۔

ابھی آدھا پونا راستہ باقی ہوگا کہ موبائل پہ گھنٹی بجی، یخ و شل ہاتھوں سے موبائل نکال کے دیکھا تو ساسو ماں کی کال تھی، علیک سلیک کے بعد اس یخ بست موسم میں عالی جاہ نے کاشانہ اقدس پہ حاضر ہونے کا فرمان جاری کیا۔
لمحہ بھر سوچے بغیر حکم پہ سر تسلیم خم کیا اور "رب سوہنڑاے دے حوالے"کی صدا سنتے ہی فون رکھ دیا۔

عالی جاہ کا رعب اور کاشانہ اقدس کے دھب دھبے کے حصار ہی میں تھے کہ سونے پہ سہاگا کے طور پہ بارش کے ہمراہ چنار کے درختوں نے اپنے پیٹھوں سے وزن ہلکا کرنے کیلئے جمع شدہ پانی بھی بڑے قطروں کی صورت ہم پہ نچاور کیے۔

سارے جہاں کی اکلوتی فرشتہ صفت، معصوم چہرے مگر یونیورسٹی کی حد درجہ لائق و قابل خوبرو دوشیزہ سے منگنی ہوئے ابھی ہفتہ چار دن ہی ہوئے تھے؛ پسند کے نتیجے میں بننے والے رشتے کے حق ادائیگی کیلئے جانا ضروری سمجھا، لیکن۔۔۔۔۔
بادل ناخواستہ آج اپنی من مانی منوا رہی تھی، لمحہ بھر کیلئے دل میں خیال غلط آیا کہ شاید یہ ابر اس "ماہ جبیں" کے کسی ناکام مجنوں کی بدعا پہ برستی جا رہی ہے۔

خدا جانے سارے کام ایک ہی دن کیوں جمع ہو جاتے ہیں؟؟؟
ایک طرف ساسو ماں کی حکم عدولی کا ڈر، دوسری جانب گھر کے بہت سے ادھورے کام، ایک طرف زور و شور سے برستی بارش و سردی، دوسری طرف اس "پری ویش" کے ہاتھوں بنے کھانے کی بھوک؛
مولا ہمیں بے ترتیب الجھنوں سے امان دے۔
ابھی چناروں کی نوازش اور باران رحمت یا زحمت میں بھیگتے اور سوچتے ہی جا رہے تھے کہ موبائل پہ ایک اور کال گھنٹی بجی، بے جان انگلیوں کو گرما دم کرتے فون کے سکرین پہ "گل اندام" کا نام دیکھا تو ساری تھکن و سردی رفو ہوگئی اور گھریلو کام کاج بھول بھلا کے لمبا سانس لینے کے بعد "السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ" کہا؛ ہلکی، نرم و نازک اور معمولی سی توتلی زبان سے "آپ آ رہے ہیں نا" سنا تو پھر آؤ دیکھا نہ تاؤ، یہ جا اور وہ جا، سیدھا ساسو ماں کے دربار پہ حاضر ہوا۔
موٹی مگر نرم سرخ بخمل کپڑے کی تہہ چھڑے فوم پہ بیھٹا، کشیدے اور ہاتھ سے گل کاری والے تکیے پہ ٹیک لگایا اور انگیٹھی میں موجود چیڑ لکڑی کے شعلوں سے سیکنے کیلئے ہاتھ بڑھائے اور حال احوال پوچھا اور تبادلہ خیال کیا۔

گھر کی "اکلوتی پیاری" سے کھانہ پکائی میں شاید دیر ہوئی؛ سو ایک بڑے پلٹ جس میں پانچ چھے خانے بنے تھے، خشک میوہ جات سے بھری میرے حضور پیش کی گئی۔ بھوکا پیاسا سردی کا مارا دانے پہ دانہ اٹھاتا گیا، خبر ہی نہیں ہوئی کہ کب بڑی دسترخوان انواع و اقسام کے کھانوں سے سجی؛ میں، ساسو ماں اور سسر جی یعنی ہم تینوں کیلئے چھے بندوں کے حساب کا کھانہ رکھ دیا گیا۔
چائنیز رائس اور پاس پڑی بروسٹ کی خوشبو نے بھوک مزید بڑھا دی،؛ایک پلیٹ میں سلیقے سے رکھے سلاد اپنے جانب توجہ مبذول کرارہی تھی، جبکہ دسترخوان کے کونے پہ پڑی "گاجر کے حلوے" کی مدہوش کرنے والی مہک نے مزہ دوبالا کردیا۔
بعد از قہوے کی بڑی گول پیالی تواضع کیلئے پیش کرتے ہی ساسو ماں قریب آ کر بیٹھی، اور کہا،

"بیٹا جی! تمہیں ہم نے اپنی کل جہاں یعنی بیٹی کا رشتہ دیا، پورا گاؤں محلہ تم پہ نظر جمائے بیٹھے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ تم مختلف میڈیا چینلز اور این جی اوز کے ساتھ کام کرتے ہو، ہمیں اس سے کوئی مسلئہ نہیں۔ لیکن جا بجا تمہارے ساتھ لڑکیوں کی تصاویر اور ویڈیوز پروگرام دیکھ کے کچھ لوگ ہمیں شکوک وشبہات میں ڈال رہے ہیں۔
بیٹا جی! تم سمجھدار ہو، ان باتوں کا خیال رکھو تو ہم بڑھاپے میں اپنی پھول جیسی بچی کیلئے پریشاں نہ ہوں"۔
ساسو ماں کی محبت بھرے گلے اور مؤدبانہ انداز گفتگو سن کر قہوے کی پیالی سے بڑا گھونٹ لیا اور جوابا عرض کیا،
"ساسو ماں! آپ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، مجھے رشتوں کا پاس رکھنا اچھے سے آتا ہے۔ میں جانتا ہوں کسے کہاں رکھنا ہے۔ فیلڈ کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ باقی آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں ہر کسی سے متاثر نہیں ہوتا، میں جس لڑکی سے شادی کیلئے راضی ہوں، وہ بہت سوں کے بعد پسند آئی ہے، یعنی ان سب کو چھوڑ کے ہی میں نے آپ کے پھول کو چنا ہے۔ ہمیں آپ کی بیٹی پسند تھی، پسند ہے اور ان شاءاللہ پسند رہے گی۔"
میرے پراعتماد لہجے سے ساسو ماں کے چہرے پہ خوشی کے ایسے آثار ظاہر ہوئے جیسے بوڑھی دادی جان کی برسوں بعد پوتا پیدا ہونے کی دعا قبول ہو گئی ہو۔
مستقبل میں میرے میرے گھر کی رونق یعنی "وہ" دوپٹہ دانتوں میں دبائے نمبر وار برتن اٹھا رہی تھی، میں قہوہ ختم کرنے پیالی ہاتھ میں اٹھا ہی رہا تھا کہ اتنے میں میرے کانوں پہ اونچی آواز پڑی،

عمیر! اٹھووو شابا، ناشتے کیلئے باہر دوکان سے ایک درجن انڈے لے آؤ؛ زرا جلدی کرنا عبداللہ کو سکول کیلئے دیر ہورہی۔

میں نیند سے بیدار ہوا، آنکھوں پہ پانی چھڑکا اور ناشتے کیلئے انڈے لانے دوکان چلا۔

ازقلم۔
بشکریہ۔ ہم سب ویب سائٹ
https://www.facebook.com/profile.php?id=100044768173115&mibextid=ZbWKwL

Umair Khan Abad

03/01/2023

امریکن آنٹی کا یارانہ

لائبہ سکول و کالج میں والی بال، ٹینس بال اور رسہ کشی کی اچھی پلیئر تھی۔ کئی میڈل اور ٹرافیاں گھر کے شوکیس کی زینت بنائی۔ موٹی تازی اور شرارتی لائبہ کی شادی کی بات (FSc) کے فورا بعد لائبہ سے پندرہ بیس سال بڑے بندے سے پکی کرا دی گئی۔

لائبہ نے بتایا کہ اسے ابھی یونیورسٹی جانا تھا، کھیلوں کے بڑے مقابلے جیتنے تھے، اور پھر آرام سکون اور من پسند کی شادی کرنی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔
شادی رکوانے کیلئے احتجاج پر والد نے خوب درگت بنائی اور اپنی بات سے ایک سوتر پیچھے نہ ہٹے۔

شادی ہوئی تو سب کچھ بھول بھلا کر میاں کے ساتھ خوشی کی زندگی جینے لگی۔ ہلکی پھلکی نوک جھونک ہوتی رہتی مگر جلد میں صاحب کو منا لیتی۔ اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں سے نوازا تو یہی کل جہاں ہوئے۔
شادی کے بعد تین چار مرتبہ امریکہ سے واپس اپنے وطن پاکستان بھی کچھ دنوں کیلئے آتے رہے، بچوں اور میاں کی چھٹیاں ختم ہونے پہ واپس امریکہ چلے جاتے۔

لائبہ اور میرا تعارف فیس بک کی ایک پوسٹ کی کمنٹس میں تھو تکرار سے ہوا۔ بات آگے بڑھی تو کمنٹس کے بجائے انبکس میں بحث شروع ہو گئی۔ کچھ دیر جب دونوں جانب سے نہ بن پائی تو بات جوں کی توں چھوڑ دی۔
اچھی خاصی مغز ماری کے بعد اس اس کے اکاؤنٹ کی چھان بین کرتے ہوئے پہلے تو مجھے وہ آئی ڈی فیک لگی۔ ( لڑکے بعض اوقات لڑکی کے نام سے فیک آئی ڈی بنا کر دوستوں کو تنگ کرتے ہیں)۔

دوسری جانب محترمہ نے بھی میری پروفائل کھنگال ڈالی؛ کچھ دیر بعد پھر سے میسج کیا، اب دونوں کے سر سے بلا ٹل چکی تھی۔
باوجود میری پروفائل چیک کرنے کے، میرا تعارف پوچھا، میری بیس سالہ عمر جان کر وہ تھوڑی مایوس ہوئی، اور ریلیشن و انٹرسٹ معلوم ہونے پر مکمل پریشاں۔

ادھر چراغوں میں روشنی تب نہ رہی، جب مجھے معلوم ہوا کہ محترمہ کے دو بچے میرے ہم عمر ہیں۔ اماں عمر کی پنتالیس سالہ لائبہ شادی کے بعد سے دو بیٹوں اور خاوند کے ہمراہ امریکہ کی رہائشی و سکونی ہیں۔

اوائل ملاقات دلچسپ تھی، سو عمر کے تقاضے ایک سائیڈ پہ رہے اور دوستی کی بندھن پکی ہوئی۔
میں انہیں خالہ کہتا اور وہ مجھے پتلو۔

ایک شام کال لگی تھی، محسوس ہونے پہ پتہ چلا وہ کچھ اشارتاً اور زومعنی گفتگو میں پٹری سے اترنے لگی؛ اس سے پہلے کہ جذبات شدت کو پہنچتے، بات روک دی اور ہوش سنبھالنے کی کوشش کی۔
بعد ازیں دو ٹوک موقف پیش کرتے ہوئے حدود طے کیے، اور دوبارہ جذبات گرمنے سے بچنے کیلئے اصول وضع کیے۔
کچھ دن خیر رہی، اس دوران تعلق گہرا اور پختہ ہوا۔ ماحول بننے پہ ایک دن ہمت کی اور گھریلو حال احوال پوچھا؛ لائبہ نے ٹھنڈی سانس لی اور بتایا،
" کورونا کے دوران حفاظتی اقدامات کے تحت ہم میاں بیوی اور بچے گھر کے الگ الگ کمروں میں رہنے لگے، کورونا وائرس کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہماری جنسی ضرورت بھی بڑھنے لگی، ایک دو مرتبہ خواہش ظاہر کی تو میاں نے روک دیا۔
دن، ہفتے اور مہینے گزرتے گئے، کورونا کا زور بھی ٹوٹ گیا، مگر نہ ٹوٹی تو اپنی جنسی خواہش نہ ٹوٹی۔"

لائبہ نے بتایا کہ "کئی مرتبہ نفس نے گناہ کیلئے بھی اکسایا، مگر وعدہ عشق، حرمت نکاح اور خوف خدا نے مگر روکے رکھا۔"

کہتے ہیں پانی اور لاوا اپنا راستہ خود بناتے ہیں۔ انہیں اگر صحیح طریقے سے مینج نہ کیا جائے تو پانی سیلاب اور لاوا آگ کی شکل اختیار کر کے بہت نقصان کرتا ہے۔
میں نے پوچھا تو نہیں،مگر شاید تسکین دل کی خاطر وہ خود ہی کچھ کرتی ہوگی۔۔۔۔۔
میری منہ میں خاک۔

لائبہ نے بتایا کہ جنسی خواہش کو رفع کرنے اور گناہ سے بچنے کیلئے وہ کئی مرتبہ خود کو ہاتھوں اور بازوؤں پہ جلا چکی ہیں؛ اس جلنے جلانے کے عمل سے شوہر باخبر رہے، مگر وہ اللہ میاں کے گائے ٹس سے مس نہ ہوئے۔

لائبہ کے مطابق غلطی ان کے میاں کی نہیں، وہ دن بھر روزی روٹی کی تلاش میں کنسٹرکشن کا کام کرتے ہیں، اور رات ان کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی عمر بھی ساٹھ سال سے اوپر ہے۔ اب اس عمر میں وہ گھر چلائے یا ۔۔۔۔۔۔۔۔

لائبہ اپنا اچھا وقت گزارنے کیلئے ایک سکول میں کام کرتی ہیں اور بچوں کی جمع پونجی کیلئے ایک آدھ مزید ڈیوٹی بھی۔
اپنی صوم و صلوٰۃ کی مکمل پابندی کرتی ہیں اور رب سے اگلے جہاں میں بہتری مانگتی ہیں۔

پنتالیس سالہ لائبہ عمر کے اس حصے میں بھی نہایت معصوم، کمزرو دل اور سچی محبت کی شیدائی تھی۔ کئی مرتبہ مجھ سے لڑی، یہاں تک کہ کئی مرتبہ مجھے بلاک بھی کیا، مگر نجانے کیوں پھر آن پہنچتی۔

اپنے شوہر سے ناامیدی اور خشک دلی کا یہ عالم تھا کہ ایک روز بات کرتے ہوئے لائبہ مجھ سے کہتی ہے کہ میں دعا کرتی ہوں اللہ جنت میں ہم دونوں کو ایک ساتھ رکھے۔
اس نے بتایا کہ میں شوہر سے بھی کہ چکی ہوں کہ اللہ جنت میں میرا تیرا ساتھ کبھی نہ کرے۔

لائبہ کے بڑے بیٹے سے بھی ایک مرتبہ میری بات ہوئی، وہ اردو سمجھ لیتا ہے مگر بولنے میں تھوڑی دشواری کا سامنا رہا۔ علاؤہ ازیں اپنے شوہر اور چھوٹے بیٹے کو بھی میرا بتایا تھا۔

مغرب میں خاندانی نظام کی تباہ کاری پہ بات کرتے ہوئے لائبہ نے سب سے پہلے اپنے گھر کی مثال دی، اور پھر کچھ چشم دید واقعات سنائے، جن میں ایک درج ذیل ہے؛
لائبہ نے بتایا کہ ان کے پرانے گھر کے سامنے ایک پاکستانی فیملی رہتی تھی، وہ لوگ بہت پہلے امریکہ شفٹ ہوئے تھے، مگر اپنا ذاتی گھر نہ لے سکے اور کرائی کے مکان میں رہتے تھے۔ اسی مکان کے اوپر منزل پہ مالک رہتا تھا۔ بقول لائبہ کے، وہ فیملی اپنا آدھا کرایا بچانے کیلئے اپنی جوان بیٹی کو رات مالک مکان کے پاس اوپر منزل پہ بھیجتے تھے، جو کہ ساری رات اس انگریز کے پاس ہوتی اور صبح کو گھر واپس آتی۔ لائبہ نے کئی مرتبہ اسے آتے جاتے دیکھا۔ واللہ اعلم

لائبہ ذہنی دباؤ اور دیار غیر میں اکیلے پن کا شکار تھی۔ خاوند دن کا تھکا ہارا، بوڑھا یا بیمار جبکہ بچے اپنی موج مستی میں مشغول رہتے۔ سکول کے بعد وہ سارا وقت اپنے کمرے میں گزارتی۔

پاکستان نہ آنے کی وجہ بتائی کہ ان کی تین بہنیں شادی شدہ ہیں اور الگ الگ شہروں میں رہتی ہیں، بھائی کوئی نہیں اور والدین دنیا سے کوچ کرگئے۔

میں یہ ساری افسوس ناک اور پریشان کرنے والے واقعات سنے کے بعد ہمدردی کا مارا پھنسا رہا۔ اپنی طرف سے دم دلاسے اور امید کی کرنیوں کی نویدیں سناتا رہا، مگر ایک پڑھے لکھے، سمجھدار اور تجربات سے گزرے شخص کو سہراب نہیں دیکھایا جا سکتا۔ ہماری Generation Gap, Different Experience And Opposite Interest کی وجہ ہم میں ذہنی ہم آہنگی پیدا نہ ہوسکی۔ یہ تعلق مہینہ بھر ہی رہا، ایک دن کسی بات پہ وہ دل برداشتہ ہوئیں اور رابطہ منقطع کر دیا۔ تب سے لے کر آج تک بات نہیں ہوسکی۔
خدا خبر اس وقت لائبہ کہاں اور کیسی ہوگی۔

میاں بیوی کی عمر میں زیادہ فرق ہونا، ایک دوسرے کو سپورٹ نہ کرنا اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہ رکھنا خاندانی نظام کی تباہی کا باعث بنا۔

نکاح اور شادی ایک عمرانی معاہدہ ہے، جس کے زریعے دو لوگ آپس میں رفیق حیات بنتے ہیں۔ یہ رشتہ تب تک کامیاب رہتا ہے جب تک عمرانی معاہدے کے اصول و ضوابط اور آپس میں محبت قائم ہو۔
برعکس اس کے گھروں میں بغاوت اور دھوکہ دہی جنم لیتی ہے، جس کی مثال معاشرے میں طلاق کی شرح سے اور فلاں کے فلاں کے ساتھ منہ کالا کرنے کی خبروں سے معلوم ہوتی ہیں۔

ازقلم۔ عمیر خان آباد
Umair Khan Abad
[email protected]
03185284685

نادیہ گل بھی مسکرائے گی۔ 22/11/2022

https://abadwrites.blogspot.com/2022/11/blog-post_16.html

نادیہ گل بھی مسکرائے گی۔ This blog can help you to entertain Aesthetics and informative blogs. if you want to come be a writer, then follow us.

01/10/2022

Well Come Friends.
Umair Khan Abad, Young Journalist, Columnist and Social Activist.

Want your public figure to be the top-listed Public Figure in Mansehra?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Videos (show all)

Umair Khan Abad

Category

Telephone

Website

Address

Mansehra
21310

Other Journalists in Mansehra (show all)
Mansehra Ki Awaz Mansehra Ki Awaz
Mansehra

سوشل میڈیا

Maryyam Maryyam
Mansehra

عـــــــــᷡــⷶــᷢــⷨــᷝــــمران خــــᷡــⷶــⷩــᷜـــان تاحیات چیرمین پاکستان تحریک انصاف ✌ █▒F░O░Low

Silent Lips. Silent Lips.
Mansehra

We Love Pakistan And Imran Khan

Voice of Battal Voice of Battal
Battal Mansehra, Khyber Pakhtunkhwa
Mansehra, 44444

حق اور سچ کی بات واٸس آف بٹل کے ساتھ

Mansehra1 Mansehra1
Mansehra

This is my official page please follow for the latest credible news, documentries and analysis.

The ReporteR.waheed FarooQ The ReporteR.waheed FarooQ
0point
Mansehra

The ReporteR

Toseef shah Toseef shah
Mansehra, 21300

junrelust

Majid YouTube Majid YouTube
Mansehra, 978654

mera yaar ki

Mansehra & Abbottabad Used Cars Mansehra & Abbottabad Used Cars
Mansehra
Mansehra

News

Abc News unofficial Abc News unofficial
Mansehra, 21300

اس چینل پہ خیبر پختونخوا کے تمام شہروں کی نیوز اپڈیٹ سے آپ کو آگاہ کیا جائے گے

N.Z Studio N.Z Studio
Mansehra

current updates