Yumna Ahmad Novels
_Don't Be A WRITER_. BE WRITING
آیت رحمان کی سن لیں۔۔۔ ❤️😂
!!
Unexpected review from sweet reader for Jaag se NIRALY ♥️✨
Btw poll me bhi yhi novel sab se agay ha💕
Thanks readers for always supporting me and stay with me🩶
جب میں نے بچپن کا شوہر ناول لکھا تھا میری ماما کہتی تھی کہ اس جتنا اچھا ناول آگے لکھا جائے گا؟
اور پھر میں نے یہ لکھا🙈جو آپ لوگوں نے بےحد پسند کیا 💜اور ان شاءاللہ آگے بھی ایسے ہی لکھتی رہوں گی۔
Jin logo ko Novels k link chaye hon wo pin post pe dekh skty hai!
ASalam u Alaikum Readers!!
Hope you're all fine ✨🌼
Here's my All novels fb links
👉
1.چاہت کے رشتے👇🏼
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=135418684822429&id=108694130828218&mibextid=Nif5oz
2۔ بچپن کا شوہر 👇🏼
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=149940726703558&id=108694130828218&mibextid=Nif5oz
3۔ تمہارا ملنا بھی خوب ہے 👇🏼
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=159353692428928&id=108694130828218&mibextid=Nif5oz
4۔ جگ سے نرالے 👇🏼
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=203517074679256&id=108694130828218&mibextid=Nif5oz
Enjoy!!
I'm posting pdf links here also
Idk wht happened to that post in which all links were available 😭
Previous epi link 🔗
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=461162316025272&id=100063945229242
✨
"اسکا مطلب بھائی آپ کو جس لڑکی سے محبت ہوئی وہ ٹوین سسٹرز ہیں!" آبان کو بھی شاک لگا تھا۔
"بھائی آپ کے ساتھ تو مذاق ہوگیا۔" وہ ایک دم ہنس پڑا تھا۔ اس کی ہنسی کو بریک آیان کے دھموکا جڑنے پر لگی تھی۔
"یار مارو تو نہیں۔۔" وہ منہ بسورے بولا تھا۔
"میں اتنا سیریس ہوں یہاں تو ہنس رہا ہے؟!"
"اچھے بھائی ہونے کے ناطے میرا فرض ہے کہ میں ہنس کر آپ کی بھی ٹنشن ریلیز کروں۔" وہ بہت سعادت مندی سے بولا تھا۔
"تو چپ ہوجا میری آدھی ٹنشن ایسے ہی دور ہو جائے گی۔" آیان کے کہنے پر آبان چپ ہو کر بیٹھ گیا۔ خفگی بھری نظر سے اپنے بھائی کو دیکھنا بھولا نہیں تھا۔
"کتنے مزے کی بات ہے ویسے بھائی۔ آپ کے بہن بھائی مطلب۔۔ میں اور پری بھی ٹونز ہے اور بھابھی بھی۔"
اس کے انداز پر آیان کی ہنسی چھوٹی تھی اور اس اتفاق پر حیرانی تو اسے بھی ہوئی تھی۔
"مطلب قسمت آپ کو ملوانا چاہ رہی ہے بھائی۔ لوگوں کے ستارے ملتے ہیں لیکن آپ دونوں کی ٹونز والی بات ملتی ہے۔"
اس کی فضول گوئی پھر شروع ہوگئی تھی وہ چپ رہ ہی نہیں سکتا تھا۔
"کیا ہورہا ہے بھائیو؟! اور آج خیریت آبان یہاں بیٹھا ہے؟' جبھی شہیر بھی کمرے میں آیا تھا۔
"ہم تمہیں یاد ہوں یا نہ یاد ہوں تم یاد ہو یہ یاد رکھ۔"شہیر کو دیکھتے ہی آبان نے شعر گنگنا کر شکوہ کیا تھا۔
" تو نے بیچارے شعر کو پورا فریکچر ہی کر دیا ہے۔" شہیر نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا تھا۔
"بس صحیح سے یاد نہیں تھا۔" آبان نے سر کھجایا۔
"شعر تجھ سے یاد نہیں ہوا مجھے بھی ایسا ہی یاد رکھا ہوگا۔"
شہیر نے اس کا مذاق بنایا تھا۔
"بندہ خلوص دیکھتا ہے۔ شعر میں کیا رکھا ہے۔" شہیر اسے ہمیشہ ایسے ہی ستایا کرتا تھا۔ اس کی بات پر آیان اور شہیر ہنس دیئے۔
"ان دنوں فری ہوتے ہو کچھ کرنے کا سوچا ہے؟" پھر ان دونوں کی اپنی ہی باتیں شروع ہوگئی تھیں اور آبان کو ان بورنگ پڑھائی اور بزنس کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ تبھی وہ وہاں سے کھسک گیا تھا۔
______________________________________
"یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ پاکستان آگئے ہوں؟" یشفہ نے اچھنبے سے پوچھا۔
"میں خود نہیں سمجھ پا رہا۔۔ میں ان لوگوں کو بھول چکا ہوں ان لوگوں نے مجھے بس اذیت ہی دی ہے۔ پھر یہ لوگ کیوں آگئے ہیں؟ اور کرنے کیا آئے ہیں۔" شاہ زر سر پکڑ کر بیٹھا تھا۔
"آپ کو پورا یقین ہے کہ وہ پاکستان ہونگے کیا پتہ صرف ان کی بیٹی ہی آئی ہو کسی ٹرپ وغیرہ کے ساتھ۔۔ ہم ابھی کچھ بھی کہہ نہیں سکتے اور آپ پریشان نہ ہو کچھ نہیں ہوگا اس بار۔ میں ہوں نہ آپ کے ساتھ۔" یشفہ نے اسے تسلی دی تھی۔
"سب ٹھیک ہی ہوگا شاہ زر۔ ہمیں پوری بات معلوم نہیں ہے تو پریشان نہ ہوں۔" وہ اب قدرے سنبھل گیا تھا۔
"ہمم میں صحیح ہوں اب۔" ایک تھکی ہوئی سانس ہوا کے سپرد کرتے اس نے خود کو ریلیکس کیا تھا۔
وہ اس پورے معمے سے نا واقف تھا تو ابھی سے سوچ کر ہی تکلیف دینا حماقت تھی لیکن اسے کہیں نا کہیں یقین تھا کہ وہ لوگ یہیں ہے۔ اسی ملک ، اسی شہر میں۔ وہ ان سے کبھی ملنا نہیں چاہتا تھا مگر یہ قسمت۔۔ عجیب بے بسی تھی۔
_______________________________________
"آبش کتاب سامنے رکھے اپنے آگے رکھے پیپرز پر کچھ لکھ رہی تھی۔ شاید وہ کوئی اسائنمنٹ بنا رہی تھی۔
تبھی پیچھے سے کسی نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا تھا۔
"نا کرو علیا۔۔ مجھے کام کرنے دو۔" اس کے پہچان جانے پر علیا نے منہ بنایا تھا۔
"آبی۔۔ یار کیسے پتہ چلا؟! وہ اس کے قریب ہی بیڈ پر بیٹھ گئی۔
"کیونکہ ایسی حرکتیں تم ہی کر سکتی ہو۔" وہ اسے مڑ کر ایک نظر دیکھتی پھر سے کام میں لگ گئی۔
"ویسے تمہیں مما بلا رہی ہے۔" علیا کی بات پر اس کے ہاتھ میں چلتا قلم رک گیا۔
"کیوں ؟"
"کیوں کا کیا مطلب کوئی بات ہوگی۔" وہ اپنے سینڈلز اتار کر اب اپنے پاؤں کو زمین پر رکھے سکون محسوس کر رہی تھی۔
"تمہیں مزہ آیا ؟" اس نے بات بدلتے ہوئے علیا سے پوچھا۔ آج اس نے اپنی فرینڈز کے ساتھ ہینگ آؤٹ کیا تھا۔
"ہاں بہت زیادہ اب تھک گئی ہوں۔" وہ مسکرائی۔
"آبی؟!" علیا کو جیسے کوئی بات یاد آئی۔
"ہمم۔۔" وہ مصروف انداز میں بولی۔
"حارب کے لیے انکار کر دو جا کر۔"
اس کی بات پر وہ جھٹکے سے اس کی طرف مڑی۔
"کیا مطلب وہ بات اس گھر میں ابھی تک چل رہی ہے اوہ گاڈ حارب کو پتہ چلا تو اس کا ریکشن کتنا شدید ہوگا تم سوچ بھی نہیں سکتی۔" آبش جھنجھلاتے ہوئے کرسی چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
"یہیں بات تو میں سمجھا رہی ہوں تم یوں کرو مما کے آگے آرام سے ایشل کا نام لے دو۔ کیا پتہ وہ سمجھ جائیں۔" علیا نے اسے سوچ میں کھڑے دیکھ کر کہا۔
"ہاں یوں ہی کرتی ہوں۔" وہ سرہلاتی ہوئی ہولے سے بولی۔
"سنو؟! تمہیں اپنے پر ذرا ترس نہیں آتا؟" علیا کی بات پر آبش جو دروازے تک پہنچ گئی تھی۔ اس نے گردن گھما کر علیا کو دیکھا اور ایک ٹھندی سانس خارج کی۔
"دیکھو میں اس کی خوشی چھین کر خود غرض نہیں بن سکتی۔ وہ مجھے کبھی خوشی نہیں دے سکے گا۔وہ ایشل کو چاہتا ہے یہ خیال ابھی تو مجھے اتنی تکلیف نہیں دیتا۔بعد میں زیادہ تکلیف دے گا۔ اور اس ٹاپک کو کلوز کر دو۔" وہ بہت نرمی سے اسے سمجھاتی باہر نکل گئی۔ علیا نے افسوس سے اپنی بہن کو دیکھا۔ شاید قسمت میں اس کے لیے بہترین لکھا ہو۔
آبش نے باہر آتے ہی اپنے آنسو پر ضبط بٹھایا تھا۔ وہ یہ کبھی نہیں کر سکتی تھی۔۔اسے حارب نہیں چاہیے تھا وہ شروع سے ہی ایشل کا تھا۔ اور رہی بات ایشل کی وہ حارب خود سب کو کہے گا۔
____________________________________
"بابا یہ دادی جان کی خواہش تھی میں ان کی خواہش کا احترام کرتا ہوں مگر پلیز آپ مجھے وہ کرنے کو کہہ رہے ہیں جو میں کبھی نہیں کر سکتا۔"
حارب تو سرے سے ہی اکھڑ گیا تھا۔۔ وہ کیا کہہ رہے تھے۔ وہ تو بھول گیا تھا اس بات کو۔ مگر وہ پھر یہی بات کہہ رہے تھے۔
"کیوں نہیں کر سکتے؟!" حمزہ کی طبیعت میں جلدبازی نہیں تھی۔ اس لیے انہوں نے بےحد سکون سے یہ بات پوچھی تھی۔
حمزہ کے لہجے نے اس کو شرمندہ کیا تھا وہ کبھی اس لہجے میں حمزہ سے نہیں بولا تھا۔ وہ سر جھکا گیا۔
"عنیش مما جانتی ہیں۔" اس کی کہی بات پر عنیشا نے اسے بوکھلا کر دیکھا اور حمزہ نے عنیشا کو۔
"تم جانتی ہو؟! حمزہ نے کچھ حیرانی سے اس سے پوچھا تھا۔
"مجھے پتہ نہیں ہے لیکن شک گزرا ہے۔۔ میں ضحی سے معزرت کر لوں گی حمزی۔ جب بچے نہیں مان رہے تو ہم انہیں فورس نہیں کر سکتے۔"
وہ اسے آرام سے سمجھانے لگی۔
"عنیش سب چھوڑ دو۔۔ پہلے مجھے یہ بتاؤ گی کہ وہ ایسا کیوں نہیں چاہ رہا؟ " حمزہ نے ایک نظر حارب کو بھی دیکھا تھا۔
"اسے کوئی اور پسند ہے۔" وہ اسوقت لاونج میں بیٹھے تھے اور سیڑھیاں اترتے ہوئے سائرہ بیگم بھی وہیں چلی آئیں۔
"آج کس کیس میں میرے بچے کی عدالت کھول رکھی ہے؟" سائرہ نے چپ کھڑے حارب پر پیار بھری نظر ڈالی تھی۔
"آپکا یہ بچہ ہم سب پر بھاری ہے امی۔" حمزہ نے خمشگیں نگاہوں سے حارب کو دیکھا تھا۔اسے اس بات پر غصہ تھا کہ یہ بات وہ پہلے ہی بتا دیتا۔
"یہ تو ہے۔ ادی جان کو عزیز بھی یہی ہے۔" سائرہ نے اسے سر پر پیار کیا تھا۔
"جاؤ اپنے کمرے میں ۔۔" حمزہ نے اسے کہا تھا۔
"مگر بابا پوچھ تو لیں۔۔"
"جاؤ یہاں سے حارب رات میں بات کرتا ہوں۔۔" وہ ان کی بات پر خاموشی سے سر جھٹک کر وہاں سے چلا گیا۔
____________________________________
وہ سیدھا ان دونوں کے کمرے کی طرف آیا تھا۔
دروازہ کھٹکھٹانے کی زحمت تو آج بھی نہیں کی تھی۔ دروازہ کھولتے ہی اس نے آبش کو ڈھونڈا تھا۔
"حارو تمہیں کب مینرز آئے گے کتنی دفعہ کہا ہے ناک کیا کرو۔" علیا جو کتاب کو انہماک سے پڑھ رہی تھی ایک دم دبک گئی تھی۔
"وہ دوسری کدھر ہے؟" اس نے علیا کی بات کو اگنور کیا تھا۔
"حارو تمہیں وہ کیا گیا ہے یہ کیسے بات کر رہے ہو؟" وہ تو اس کے بدلتے تیور دیکھ کر ہی حیران تھی۔
"تم آج کے لیے مجھے کچھ نہ کہو اور بتاؤ کہ وہ کہاں ہے؟" وہ سنجیدہ دکھ رہا تھا۔
"کوئی بات ہوئی ہے حارب ؟" اب علیا کو بھی سیریس ہونا پڑا تھا کیونکہ حارب کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔
"ہوں ۔۔اور کوئی چھوٹی بات! بابا میری اور آبش کی شادی کروانا چاہ رہے ہیں۔۔ پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے سب کو؟ میں تم لوگوں سے چار ماہ چھوٹا ہوں۔ یہ بات ہم تینوں کے دماغ میں شروع سے ہے۔ اور وہ لوگ ایسا سوچ رہے ہیں؟"
وہ سانس لینے کو رکا تھا۔ اپنے دھیان میں اندر آتی آبش کچھ بولنے والی تھی مگر حارب کو بیٹھا دیکھ کر خاموش ہوگئی۔
حارب یا علیا نے اسے نہیں دیکھا تھا۔ حارب نے اپنی بات جاری رکھی۔
"میں نے کبھی تم دونوں کو اس طرح سے نہیں لیا۔ ہم بہت اچھے دوست ہیں اور یا تو بہن بھائی۔ تم دونوں میری بڑی بہنیں اور میں تمہارا شرارتی بھائی۔۔۔ اور پھر میں شروع دن سے ایشل کو پسند کرتا آیا ہوں اس بات سے بھی تم دونوں اچھے سے واقف ہو یا مما۔"
"میں تمہیں سمجھتی ہوں حارب اور مجھے یہ بات پتہ چلی تو میں نے مما کو منع کردیا ۔ اب تمہیں چاہیے کہ تم گھر والوں سے اپنے اور ایشل کے رشتے کی بات کر لو۔ یہی صحیح موقع ہے۔" آبش کے بولنے پر وہ دونوں چونکے تھے۔ وہ اندر آتی ہوئی کہہ رہی تھی۔ جس طرح اس نے یہ بات کہی تھی وہ ہی جانتی تھی۔
"ٹھیک کہتی ہو پارٹنر اور تھینکس۔" وہ مسکرایا تو آبش بھی زبردستی مسکرائی۔
"ویسے حارب اگر تمہیں کوئی نہ پسند ہوتا تو تم اس پروپوزل کو لے کر سوچتے؟" علیا کے دماغ میں پتہ نہیں کیا سمائی تھی اس کے سوال پر آبش کا دل کیا اسے اٹھا کر کمرے سے ہی باہر پھینک دے۔
"میں نے کہا نہ میں نے کبھی سوچا نہیں اس بارے میں۔ اور ایشل کے بغیر اپنی لائف ۔۔ نہیں کبھی نہیں سوچ سکتا ایسا۔" وہ ہنسا تھا اور پھر کمرے سے نکل گیا۔
"مل گیا تمہیں سکون سوال پوچھ کر؟" آبش نے کھا جانے والی نظروں سے علیا کو دیکھا۔
"ضرورت ہی کیا تھی یار پوچھنے کی؟" وہ خفا ہورہی تھی۔
"یار میں نے تو بس یونہی پوچھ لیا۔"
"مل گیا ناں جواب۔"
"اچھا یار اداس مت ہو آبش۔۔ مجھے اپنی بہن ایسے اچھی نہیں لگتی اور دیکھنا تم اس سے بھی بیسٹ ڈیزرو کرتی ہو۔" علیا نے اسے اپنے ساتھ لگایا تھا اور وہ رو بھی نہیں پائی۔
________________________________________
"مما آج ایشل ہمارے گھر آرہی ہے۔ اس نے ابھی فون کر کے بتایا ہے۔" علیا ضحی کو بتاتی کرسی گھیسٹ کر بیٹھ گئی۔ وہ سب ڈائٹنگ ٹیبل پر بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔
"اچھی بات ہے اس کے آنے سے گھر میں تھوڑی رونق لگ جائے گی۔" میرب کو بہت خوشی ہوئی تھی۔
"آبش تم میرے ساتھ ناشتے کے بعد تھوڑی دیر تک چلنا مجھے گروسری کرنی ہے۔" چونکہ آج سنڈے تھا تبھی ضحی نے اسے کہا تھا۔ آبش نے سر اثبات میں ہلا دیا۔
"حارب نہیں نظر آرہا وہ کیوں نہیں آیا ناشتے پر؟" سہیل صاحب نے گھر کی رونق کی غیر موجودگی محسوس کی تھی۔
"تایا جان اس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی تو میں اسے اوپر ہی ناشتہ دے آئی ہوں۔ابھی پھر جاؤں گی میڈیسن دینے۔" عنیشا کے بتانے پر وہ فکرمند ہوئے تھے۔
"موسم کی تبدیلی کی وجہ سے سب بیمار ہو رہے ہیں۔ خیال رکھو۔" وہ اپنا ناشتہ ختم کر چکے تھے سو اٹھ کر چل دئیے۔
سب ہی آہستہ آہستہ ناشتہ ختم کرتے اپنے کاموں میں لگ گئے تھے۔
_______________________________________
"کوئی چائے ہی بنا دو یار۔" حارب کی صبح سے بستر پر پڑے بس ہوگئی تھی تبھی وہ نیچے آتے ہی سیدھا کچن میں آیا مگر اس پر نظر پڑتے ہی چہرے پر چھائی بیزاری کی جگہ مسکراہٹ نے لی تھی۔ موڈ خوشگوار ہوگیا تھا۔
"حارب بھائی میں چائے بنا دوں آپ کو؟" ایشل نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
حارب نے ایک نظر اپنے حلیے پر ڈالی وہ رف سے ٹراؤزر ٹی شرٹ میں تھا۔ بالوں میں ہاتھ چلاتے اس نے اپنے بال سیٹ کیے تھے۔
"بنا دو مہربانی ہوگی۔" وہ مسکراتا ہوا وہی اس کے پاس شیلف پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔
"تم کب آئی ویسے؟" اندر ہی اندر اسے غصہ بھی آیا کہ وہ دونوں چڑیلیں اسے بتا بھی تو سکتی تھیں۔ مگر وہ تھیں کہاں؟
"میں تو کب کی آئی ہوئی ہوں۔۔ آپ ہی غائب تھے۔" اس کے انداز پر حارب کو لگا جیسے وہ شکوہ کر رہی ہو جو بھی تھا اسے پسند آیا تھا اس کا یہ انداز۔
"ہمم بس پتہ نہیں چلا مجھے۔ یہ بتاؤ وہ دونوں کدھر ہیں تمہاری کزنز؟"
"آبش تو ضحی مامی کے ساتھ مارکیٹ گئی ہوئی ہے اور علیا ابھی گئی ہی ہے آپکی مما نے بلایا تھا۔ "
"میری مما تمہاری کچھ نہیں لگی؟" وہ ابرو اچکا کر بولا۔وہ ساتھ ساتھ اس کے لیے چائے بنا رہی تھی۔
"میری مامی۔" اس نے نظر اٹھا کر حارب کو دیکھا تھا مگر کچھ تھا اس کی نظروں میں۔۔ وہ نظریں ہٹاتی چائے کا کپ نکالنے لگ گئی۔
"ویسے تم یہاں کچن میں کر کیا رہی ہو؟" وہ بات کرنا چاہتا تھا اس سے اب بات چاہے جو بھی ہو۔ کیا فرق پڑتا ہے۔
"ہمم۔۔ میں نے اور علیا نے سوچا کچھ بنایا جائے آج۔"حارب نے پیچھے والی شیلف پر اکٹھے کیے ہوئے سامان پر ایک نظر ڈالی تھی۔
دونوں کے بیچ خاموشی چھائی تھی۔ حارب کو یہ خاموشی سب سے زیادہ چھبتی تھی۔ آخر وہ زیادہ بولتی کیوں نہیں تھی؟
ہاا۔۔ باپ پر گئی ہے۔" ایک ہی خیال آیا تھا اس کے ذہن میں۔
"یہ لیں چائے۔" وہ ایشل کی آواز سے اپنے خیالات سے باہر آیا تھا۔
اس نے وہ کپ حارب کے قریب ہی رکھ دیا تھا۔
اس نے چائے کا کپ اٹھا کر سپ لیا تھا.
"کسی سایئکاٹرسٹ نے کیا خوب کہا ہے۔ جو لوگ چائے میں چینی زیادہ استعمال کرتے ہیں وہ لوگ حقیقت میں بھی اتنے ہی سویٹ ہوتے ہیں۔" حارب کی بات پر وہ گھبرائی تھی۔ مگر فوراً سنبھل گئی۔
اس نے چینی زیادہ ڈال دی تھی۔اس بات پر وہ اکثر شاہ زر سے بھی سنتی تھی۔
"یہ بات آپ نے ابھی خود سے کہی ہے۔" وہ ہولے سے ہنس دی۔
"نہیں کہیں پڑھی تھی۔۔"حارب نے اس کے تاثرات انجوائے کیے تھے۔
"اور ان لوگوں کے بارے میں پھر کیا کہا ہے جو چینی کم استعمال کرتے ہیں ؟" وہ بھی اب مسکراہٹ دبائے پوچھ رہی تھی۔ کانفیڈنٹ وہ ہمیشہ سے رہی تھی۔ مگر حارب کی باتیں اکثر کنفیوز کر دیتی تھیں۔
"ان کو کہا ہے کہ انہیں پھر سویٹ لوگوں کے ساتھ رہنا چاہیے۔"
اس کی بات پر وہ تھوڑا نروس سی ہوئی تھی۔
کیا یہ اتنا ڈائریکٹ ہی بولتا ہے؟
"ڈھونڈے پھر کوئی سویٹ؟" اس کے منہ سے گھبراہٹ میں اچانک نکل گیا۔
"ڈھونڈنا وقت کا ضیاع ہے اس صورت میں جب ایسے لوگ آپ کے پاس الریڈی موجود ہوں۔" اس کی باتیں اسے کنفیوز کر رہی تھیں۔ وہ کہہ کر برا پھنسی تھی۔
ابھی ان میں کچھ اور بات ہوتی علیا کچن میں آئی تھی۔ ایشل نے سکھ کا سانس لیا تھا۔
"حارو تم ٹھیک ہو اب؟ بخار اترا؟" علیا کی بات پر ایشل نے سر جھٹکے سے اٹھا کر حارب کو دیکھا تھا۔ اس نے اسے بخار کا کیوں نہیں بتایا۔
"ہوں اب کافی بہتر ہوں۔ "حارب نے ایشل کو دیکھا ۔ ایشل نے سٹپٹا کر نظریں فوراً جھکا لیں تھیں۔ وہ زیرلب مسکرا دیا۔
"علیا مجھے میڈیسن لا دو۔"وہ چائے کا کپ خالی کرتا ہوا بولا تھا۔
"پہلے کچھ کھا تو لیں۔" ایشل کے یکدم فکرمندی سے بولنے پر جہاں علیا نے ایشل کو دیکھا تھا وہیں حارب نے بھی مسکراہٹ دبائے اسے نظر اٹھا کر دیکھا۔
"آپ کھلا دیں۔"حارب کی بات پر ایشل کی بس ہوگئی ۔۔
"علیا تم دے دو انہیں۔ میں میرب مامی کے پاس جا رہی ہوں۔" اسے یہاں سے جانا بہتر لگا تھا۔
"اتنی فکر؟!۔" اس کے پاس سے گزرنے پر حارب نے بہت ہولے سے اسے بولا تھا وہ سر جھکائے وہاں سے نکلی تھی۔
باہر آکر سانس لیتی وہ میرب کے کمرے کی طرف گئی تھی۔
_____________________________________
پری نے انٹری ٹیسٹ پاس کر لیا تھا۔سب کو یہ بات سن کر بے حد خوشی ہوئی تھی۔ وہ بھی بہت خوش تھی۔ اب بس وہ میڈیکل کالج میں ایڈمیشن لے کر آگے پڑھے گی۔ سیکنڈ ائیر کا رزلٹ تو پہلے ہی آچکا تھا۔ آبان کے مارکس اچھے تھے مگر پری کے گریڈز ہمیشہ ہائی رہے تھے۔
سارے دن کی تھکی وہ اپنے لیے کافی بنا کر لان میں لے آئی تھی۔
رات کی گہری خاموشی اور پرسکون ماحول اسے ہمیشہ سے پسند تھا۔
شہیر اپنے کمرے میں جا رہا تھا جب اس کی نظر لاؤنج کی کھڑکی سے باہر لان میں بیٹھی پریشے پر پڑی۔ وہ تھوڑا حیران ہوا پھر وہ بھی لان کی طرف چل دیا۔
وہ دور آسمان پر نظر جمائے نجانے کیا ڈھونڈ رہی تھی۔ جب اسے اپنے پاس کسی کی موجودگی کا احساس ہوا پری نے چونک کر اپنے ساتھ بیٹھے وجود کو دیکھا تو مسکرا دی۔
"تم مجھے دیکھنا چاہ رہی تھی سوچا تمہارے پاس آجاؤں!" شہیر کی لاپرواہی سے کہی بات پر پری گڑبڑا گئی۔
"مطلب؟"
"جس طرح تم چاند کو دیکھ رہی تھی۔۔ مجھے لگا اداس ہوگی اور مجھے یاد کر رہی ہوگی۔" اس نے مسکراہٹ دبائے سنجیدہ بنتے ہوئے کہا تو پری کو اس کی شرارت سمجھ میں آگئی تھی۔
"تمہیں اتنی بڑی خوش فہمی نہیں رکھنی چاہیے اپنے بارے میں۔" وہ استہزائیہ ہنسی۔
"کیا تم مجھے یاد نہیں کر رہی تھی۔" اس کا منہ بنا۔
"بالکل بھی نہیں۔" پری کا لہجہ قطعی تھا۔ وہ اسے تنگ کرتا تھا وہ بھی تو کر سکتی تھی۔
"جب چلا جاؤں گا تو یاد کیا کروں گی، تب پوچھوں گا۔" اس کے نروٹھے پن سے کہنے پر اسے ہنسی آئی تھی۔
"ویسے تم جاؤ گے کہاں؟" وہ ہنوز اسی موڈ میں تھی۔
"یہ تو نہیں پتہ جہاں پوسٹنگ ہوگئی۔" وہ آسمان پر نظریں جمائے بولا۔ مگر پری نے اسے ناسمجھی سے دیکھا۔اسے لگا تھا وہ مذاق کر رہا ہے تو کیا وہ سچ میں کہیں جا رہا تھا۔
"پوسٹنگ مطلب صحیح سے بتاؤ شہیر۔" پری کو بے چینی ہوئی تھی۔
"یہ جو سی ایس ایس کے پیپرز دئیے ہیں ان کو پاس کر لیا تو میری کسی دوسرے شہر پوسٹنگ ہوجائے گی ٹریننگ کے لیے اور اس میں ایک سال لگتا ہے۔" وہ اسے بتا رہا تھا مگر وہ تو سن ہوگئی تھی۔
"تم دعا کرنا میں پاس ہوجاؤں میں نے دن رات محنت کی ہے۔" اس کے اتنے مان سے کہنے پر وہ کچھ کہہ ہی نہ سکی۔
"کیا دعا کرتی وہ کہ وہ اس سے ایک سال کے لیے دور ہوجائے اور پاس نہ ہوتا تو بھی وہ دکھی ہوجاتا ایسا وہ کسی صورت نہیں چاہتی تھی۔ سارے سال کی محنت تھی شہیر کی۔
وہ کہاں پھنس گئی تھی؟
"کروگی نا۔"شہیر اس سے پوچھ رہا تھا۔
"ہمم ضرور۔" اس کی دو منٹ کی شوخی اور چہرے پر پھیلی مسکراہٹ غائب ہوگئی تھی۔ اس کے پاس بیٹھا شخص اس سے کتنا دور تھا۔ یہ احساس اسے آج شدت سے ہوا تھا۔
______________________________________
قسط آج بھی لمبی ہے۔
اپنی رائے ضرور دیا کریں سب🙏🏻
کوئی ٹائپنگ مسٹیک ہو تو معذرت ✨
نیکسٹ کیا ہوگا آج کی قسط کیسی لگی؟"
Previous Episode recall kr lein🙂👇
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=576250904072536&id=108694130828218
✨
Aj Ayan ki confusion bhi dor kr dete han💓🙆🏻♀️
"شاہ زر! دادی جان ہمیں کیسے چھوڑ گئیں!" یشفہ دادی جان کی بہت لاڈلی تھی۔۔ شاہ زر نے اسے مشکل سے سنبھالا ہوا تھا۔۔ مگر وہ پھر رو پڑتی تھی۔۔سب ہی افسردہ سے ایک دوسرے سے بے خبر اپنی سوچوں میں گم بیٹھے تھے۔۔
گھر میں سب کو ہی چپ لگ گئی تھی۔۔ دادی جان اس گھر کی بزرگ تھیں۔ یہ غم کبھی بھی ختم نہیں ہونا تھا۔ انہیں ہر جگہ ان کی کمی محسوس ہونی تھی۔۔
حمزہ ضبط کر کے بیٹھا رہا تھا۔۔ مگر جب وہ دادی جان کو دفنا کر آئے تھے تب وہ اپنے کمرے میں دروازہ بند کر کے رو دیا تھا۔۔
وہ بوڑھی ہوچکی تھیں۔۔ دل میں درد کے باعث وہ برداشت نہیں کر سکی اور انتقال کر گئیں۔۔
مگر ان سب نے کبھی ایسا سوچا ہی نہیں تھا کہ وہ انہیں ایسے چھوڑ کر چلی جائیں گی۔
شہریار اپنے کمرے میں ہی لیٹا ہوا تھا۔۔میرب اس کے پاس ہی بیٹھی تھی۔
وہ گھر میں سب میں سے چھوٹا تھا۔ تبھی شاید یہ حالت ہوگئی تھی۔۔
میرب خود بھی روئی تھی ایک تو دادی جان کا دکھ پھر شہریار کی حالت۔۔ اس سے دیکھی نہیں جارہی تھی۔
"میرب تمہیں پتہ ہے ہم سب بچپن میں دادی جان کے ساتھ کتنے مزے کرتے تھے۔۔ وہ سب کی بات سنتی تھی۔۔"
میرب نے شہریار کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی تھی۔
"شہری۔۔ آپ حوصلہ رکھیں۔ اللّٰہ کا حکم تھا اور ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ آپ ان کے لیے دعا کریں۔ زیادہ سوچ کر اپنے آپ کو تکلیف نہیں دیں۔"
"میرب وہ میری دادی جان تھیں میں انہیں کیسے بھول سکتا ہوں میرے خیالوں میں وہ بار بار آرہی ہیں۔۔" وہ اتنا بڑا مرد ہو کر رو دیا تھا۔۔
میرب نے اسے اپنے ساتھ لگا کر چپ کروایا تھا۔
"شہریار آپ ایسے روئیے گے تو دادی جان کو تکلیف ہوگی۔" وہ اسے بچوں کی طرح پچکار رہی تھی۔
"اور جو تکلیف مجھے ہو رہی ہے اس کا کیا!؟ ہم اب کبھی بھی دادی جان سے مل نہیں پائیں گے وہ ہمارے بیچ نہیں ہونگیں ہم ان سے کبھی بات بھی نہیں کر سکیں گے۔۔ یہ سب سوچ کر مجھے دل میں عجیب سا درد ہوتا ہے۔" اس کے ایسے کہنے پر میرب کی آنکھیں بھی پھر سے نم ہوئی تھیں۔
"اللہ ہم سب کو صبر دے۔۔" اس نے شہریار کے بال سہلاتے ہوئے اسے ساتھ لگائے ہی اپنے آنسو صاف کیے تھے۔
اسے یاد تھا شادی کے بعد وہ اس گھر میں آئی تھی تب سب نے اس کو بہت مان دیا تھا اور دادی جان کے پیار نے ہی اسے اتنی ہمت دی تھی کہ وہ سب کے دلوں میں گھر کر گئی۔ ان کی شادی کو ابھی زیادہ سال نہیں ہوئے تھے۔ وہ دادی جان کو واقعی کبھی بھول ہی نہیں سکیں گے۔۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
مئی کا آخری ہفتہ چل رہا تھا۔۔ پری کے پیپرز ختم ہوگئے تھے۔۔ وہ آج کل ایم ڈی کیٹ کی تیاری کر رہی تھی۔
شہیر بھی اپنے پیپرز کافی پہلے سے فارغ ہوچکا تھا۔ کلئیر کرنے کے بعد انٹرویو ہونا تھا نجانے پیپرز میں پاس ہوگا کہ نہیں آگے اب اس کی قسمت پر سب تھا۔
آجکل وہ فری تھا۔۔ آیان آفس اور آبان بھی بالکل فری اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتا تھا۔۔ ایسے میں شہیر بالکل بور ہوجاتا تھا۔
اصل وجہ پری کی غیر موجودگی تھی۔ وہ اس بات سے انجان تھا۔۔ کچھ تھا جو وہ سمجھ نہیں رہا تھا۔
"مما پری کدھر ہے؟" وہ اریج کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔
"پڑھ رہی ہوگی۔۔" انہوں نے بھی سرسری سا جواب دیا تھا۔
ابیہا نے شہیر کی طرف ایک نظر دیکھا اور مسکراہٹ دبائے نظریں واپس ٹی وی پر کر لیں۔
"تم کیا یہ فضول سا ڈرامہ دیکھ رہی ہو، ادھر دو ریموٹ۔۔" ابیہا کے ہاتھ سے ریموٹ کھینچتے ہوئے اس نے کارپٹ کشن کو گود میں رکھا تھا۔
وہ دونوں اس وقت نیچے کارپٹ پر ہی بیٹھے ہوئے تھے۔
"بھائی تھوڑا سا رہ گیا ہے مجھے ڈرامہ دیکھنے دیں۔" ابیہا نے اس سے ریموٹ لینا چاہا۔
"ضرورت کیا ہے ٹی وی میں دیکھنے کی۔ آئینے میں جا کر اپنی شکل دیکھ لو۔"
"ابیہا نے غصے سے زور سے کشن اسے دے مارا اور وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔
"کتنی بار کہا ہے کہ مت تنگ کیا کرو ہر کسی کو۔۔" اریج نے اسے جھاڑ پلائی تھی۔
"وہ میری بہن ہے ماما۔" شہیر نے لاپرواہی سے جواب دیا تھا دھیان اس کا ٹی وی میں چلتے میچ پر تھا۔
"اور جو ہر وقت پریشے کو تنگ کرتے رہتے ہو؟" ان کی بات پر وہ ہنس دیا۔
"اسے تنگ کیے بغیر رہا ہی نہیں جاتا۔۔" اپنے کہے لفظوں پر اس کی ہنسی تھم گئی تھی۔
"اس نے سچ ہی تو کہا تھا۔۔ ایک نظر اریج کو دیکھا وہ افسوس سے سر ہلا کر رہ گئیں۔۔ انہیں محسوس نہیں ہوا تھا یا یہ عام بات تھی۔۔
"اف۔۔ وہ اتنا کیوں سوچ رہا ہے۔۔" اسے ہفتوں پہلے ابیہا کی باتیں یاد آنے لگیں۔۔ میچ پر سے اس کا دھیان ہٹ گیا تھا اور ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا۔
"میں باہر سے ہو کر آتا ہوں۔" وہ ٹی وی کے آگے سے اٹھتا لاونج سے باہر نکل گیا۔ اریج نے بھی کندھے اچکا دئیے اور اپنے کام میں مصروف ہوگئیں۔ وہ پریشے کے ہی سوٹ کا بٹن ٹھیک کر رہی تھیں۔
تبھی وہاں آنیا چلتی ہوئی آئی تھیں۔۔
"اریج میں آبان کے ساتھ ذرا جا رہی ہوں عریش کے دوست کی طرف۔۔ ان کے دوست کی دادی کا انتقال ہوگیا ہے۔۔ اور پھر عریش کے دوست کے بیٹے سے آبان کی بھی دوستی ہے۔"
اریج کو سن کر دکھ ہوا تھا۔
"ٹھیک ہے آنیا آپ چلی جائیں ایسے اچھا نہیں لگتا۔"
"ہمم۔۔ اب ہفتہ ہونے کو ہے وقت ہی نہیں مل رہا تھا۔ چلو پھر میں آجاؤں گی تھوڑی دیر میں۔۔ میں نے امی لوگوں کو بھی بتا دیا ہے۔" وہ کہتی ہوئی اپنی چادر درست کرتی لاؤنج سے نکل گئیں۔
_____________________________________
"روبی باجی آئی ہیں۔۔" پری کے بولنے پر جہاں آیان نے اسے گھورا تھا وہی شہیر نے گردن موڑ کر آواز کے تعاقب میں دیکھا تو تیز رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس دوپٹہ گلے میں اچھے سے پھیلائے لمبی چھوٹی آگے کو کیے کھڑی ایک لڑکی پر نظر پڑی۔
"کسی گاؤں سے تمہاری کوئی رشتے دار تو نہیں ہیں ؟" شہیر نے گردن واپس گھما کر آیان سے پوچھا تو آیان اسے نظر انداز کیے کھڑا ہوگیا۔۔ شہیر روبی کو جانتا تھا بس آیان کو چھیڑ رہا تھا۔
"بٹھاؤ انہیں یا لے کر کھڑی رہو گی؟"
"آئیں بیٹھیں۔۔ میں آپ کے لیے کچھ لاتی ہوں۔۔" آیان کی بات پر پری نے لاؤنج کے صوفے پر روبی کو بیٹھایا تھا۔
"میں آتا ہوں۔" شہیر وہاں سے فوراً اٹھ کر پری کے پیچھے کچن میں گیا جبکہ آیان اور روبی اکیلے رہ گئے تھے۔
"وہ جی۔۔ آپ کیسے ہیں؟" روبی کو بات کرتے ہوئے ہمیشہ شرم کیوں آجاتی تھی؟
"جی الحمدللہ ابھی تک ٹھیک ہوں آگے کا کچھ پتہ نہیں۔۔"
اللہ نہ کرے جی ایسے نہیں کہتے۔" اس کے زچ ہونے کو نوٹ کیے بغیر وہ فوراً بولی تھی۔ آیان نے بےبسی سے سر جھٹکا۔ کچھ چیزیں آپ کے بس میں نہیں ہوتیں آیان کو بھی سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ روبی کو کیسے روکے؟
"آپ زیادہ نہیں سوچا کریں جی ۔۔۔" اس کو ایسے کھڑا دیکھ کر روبی نے پھر سے کہا تو آیان اپنے خیالوں سے باہر نکلا۔
"آپ بھی زیادہ میرے بارے میں نہ سوچا کریں۔۔" ایک دم ہی سنجیدگی سے کہتا وہ وہاں سے سیڑھیوں کا رخ کر گیا۔۔ روبی کے دل کی دھڑکن سست پڑی تھی۔
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
"پری۔۔؟ آیان بھائی کا کیا چکر ہے اس کے ساتھ؟" پری روبی کے لیے چائے بنانے آئی تھی تبھی شہیر بھی اس کے پیچھے چلا آیا۔
"یہ کیا بول رہے ہو تم پاگل تو نہیں ہو۔۔ کوئی چکر نہیں ہے اور پلیز ایسے لفظ تم لوگ ایک لڑکی کے لیے کتنی آسانی سے استعمال کر جاتے ہو۔۔ اس بیچاری سے تو بات تک نہیں ہوتی چکر کہاں سے دے گی۔" پری نے پہلے اسے ڈانٹا اور آخر پر آہستہ سے بولی تھی۔
"تمہیں کیا ہورہا ہے؟ نہیں کہتا کچھ۔" ساتھ ہی پلیٹ میں سے پری کے فرائی کیے کباب اٹھانے والا تھا جب تھپڑ پڑا اسکے ہاتھ پر ۔
"اوئے ظالم ۔۔ !" شہیر نے فوراً ہاتھ پیچھے کیا۔
"خبردار نظر بھی نہ مارنا ان کی طرف میں نے تمہارے لیے فرائی نہیں کیے میری مہمان ہے وہ یہ اس کے لیے ہیں۔" ایک ابرو اٹھا کر اس نے تنبہہ کی۔
"کیسی میزبان ہو تم پتہ بھی ہے تمہاری مہمان وہاں لاونج میں اکیلی ہے یا اس بیچاری کو دیواروں ، صوفے اور کشنز سے باتیں کرنے کے لیے چھوڑ آئی ہو۔"
اسکی بات پر پری نے افسوس سے اپنے سر پر ہاتھ مارا تھا ۔۔
"میں بھول گئی ابھی ابیہا سے کہہ کر آتی ہوں اس کو کمپنی دے دے۔۔ تم اتنا چائے کا دھیان رکھ لو۔" وہ اسے کہتی کچن سے جانے لگی۔
"باقی گھر والے سب کدھر ہیں ؟" شہیر نے یوں ہی پوچھ لیا کیونکہ وہ تھوڑی دیر پہلے ہی گھر آیا تھا۔
"میرا رشتہ دیکھنے گئے ہیں ۔۔"
"ہیں؟؟" شہیر نے جھٹکے سے اس کی طرف رخ موڑا تھا۔
"ہاں نا۔" وہ منہ میں دوپٹہ دبائے شرمانے کی ایکٹنگ کرتی وہاں سے بھاگی تھی۔
"یہ کیا بول کر گئی ہے؟؟" شہیر پیچھے حیران پریشان کھڑا رہ گیا ۔ چائے پر سے دھیان ہٹ گیا۔ وہ جو اسے بھیج کر اسکے کباب ہڑپ کرنے کا پلان بنائے بیٹھا تھا یاد آتے ہی فوراً سے سر جھٹک کر پلیٹ پکڑے کچن سے بھاگا تھا۔
پری کچن میں آئی تو چائے بس باہر ابلنے کو تھی فوراً سے بھاگ کر برنز بند کیا۔
"کہا بھی تھا اس شہیر کے بچے کو کہ چائے کا دھیان رکھے غائب ہی ہوگیا۔۔
چائے کپ میں نکالتے وہ پلیٹ پکڑنے لگی مگر یہ کیا ؟ پلیٹ کہاں گئی کباب والی؟ ایک تو صدا کی پھوہڑ پری نے کباب فرائی کر لیے تھے یہی بہت تھا اوپر سے یہ بھوت وہ بھی لے گیا۔
اب اسے سمجھ آرہی تھی کہ کیوں اس نے پری کو باہر بھیجا تھا۔
"افف شہیر۔۔ بھوکا انسان۔" اپنا بدلہ بعد کے لیے اٹھائے وہ غصے سے تلملاتی پیر پٹخ کر کیبنٹ میں کچھ ڈھونڈنے لگی تھی ۔۔ اب تو مزید کباب بھی نہیں بچے تھے اور گھر میں کچھ تھا بھی نہیں۔۔ مشکل سے ایک بسکٹ کا پیکٹ ہاتھ آیا تھا۔۔ وہ چائے کے ساتھ پھر اس نے ارینج کیے تھے۔۔
روبی سے الگ معزرت کی مگر روبی آج چپ چپ تھی۔۔ پری جانتی تھی یہ بھائی کے رویے کی وجہ سے ہے مگر وہ یہ بات نہیں جانتی تھی کہ آیان نے اسے آج کیا بات کہہ دی ہے۔
________________________________
شہیر کبابوں سے انصاف کرتا کب سے پری کے انتظار میں تھا کب وہ آئے گی اس پر چیخے گی۔ کتنے دن ہوگئے تھے اس سے لڑے ۔ شہیر کے تو دن ہی نہیں گزر رہے تھے اس سے لڑے بغیر ۔۔ آج وہ ہاتھ آئی تھی تو وہ کیسے یہ موقع جانے دیتا۔
پلیٹ خالی کیے وہ بیڈ پر ہی نیم دراز سا ہوکر موبائل پر کوئی نمبر ڈائل کر رہا تھا۔
اپنی امی کو کال ملاتے ہی فون کان سے لگائے وہ دوسری طرف فون اٹھائے جانے کے انتظار میں تھا۔
مگر کوئی نہیں اٹھا رہا تھا۔۔ اچانک بیچ میں ایک کال آئی اس نے فوراً رسیو کی۔
"ہاں بول جانی۔"
"میں ایک دم فٹ۔" دوسری طرف شاید اس کا کوئی دوست تھا۔
"آج نہیں آسکتا میں سویٹ ہارٹ۔" شہیر نے اب قہقہہ لگایا تھا غالباً ادھر سے کوئی فقرا اچھالا گیا تھا۔
"نہیں میں بس پریکٹس کر رہا ہوں ابھی سے بولنے کی۔۔ بعد میں مشکل نہ ہو۔" ہنستے ہوئے شرارت سے کہا گیا۔
"صوفی میری جان آجاؤں گا ٹنشن کیسی ؟" اس کی اس شریں زبانی پر اگلے نے اسے ہنس کر آنے کی تاکید کی اور فون رکھ دیا۔۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔
باہر کھڑی پری نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تھا وہ اس کو سبق سکھانے آرہی تھی مگر اس کی باتیں سن کر دنگ رہ گئی۔۔کچھ ٹوٹا تھا اس کے اندر۔۔ شاید دل...
دل میں "صوفی" کو چڑیل کا لقب دیتی وہ الٹے قدموں واپس چل دی۔
_________________________________
"مجھے افسوس ہوا سن کر۔۔ آپ کے دکھ کا اندازہ لگا سکتی ہوں لیکن ہم اللّٰہ کی مرضی کے آگے کچھ نہیں کر سکتے ۔۔" آنیا ,ضحی اور عنیشا کے پاس بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔
"یہ میری بیٹی ہے آبش۔" جوس کا گلاس ٹرے میں سجائے آبش، آنیا کو سرو کر رہی تھی تبھی ضحی نے تعارف کروایا تھا۔ آبش نے بھی فوراً سلام جھاڑا تھا۔
"وعلیکم السلام۔۔ ماشاءاللہ میری بھی ایک بیٹی اتنی ہی ہے۔"
آنیا نے گلاس لے کر سامنے ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔ وہ اس وقت ڈرائینگ روم میں موجود تھے۔
"ماشاءاللہ ۔ میری ایک اور بھی بیٹی ہے اور یہ دونوں ٹونز ہیں۔" ضحی نے مزید اضافہ کیا تھا۔
تبھی علیا بھی ٹرالی لیے وہاں داخل ہوئی تھی۔ خاصی پرتکلف سی سیٹ کی ہوئی تھی۔
"آپ کو اس سب تکلف میں پڑنے کی ضرورت نہیں تھی۔۔ آنیا نے علیا کو مسکرا کر دیکھا ساتھ ہی ضحی کے سامنے ہچکچائی تھیں ۔
"اپنے گھر والی بات ہے، آپ لیں نا۔۔"عنیشا نے اصرار کیا تھا۔ مزید ان میں تھوڑی بات چیت چلی تھی۔ گھر کی باقی خواتین بھی وہاں آگئی تھیں ۔۔ گھنٹے سے اوپر وقت دیکھ کر اب آنیا نے اجازت چاہی۔۔
سب سے مل کر اسے حقیقتاً بہت اچھا لگا تھا۔
____________________________________
"اوئے مہد۔۔میرا کوئی موڈ نہیں ہورہا کہیں جانے کا اور پھر اماں جان کی ڈیتھ کی وجہ سے مما کی طبیعت آجکل بہت اپ سیٹ ہے۔"
یوشع اپنے کمرے میں بیٹھا کال پر بات کر رہا تھا۔
"اوکے چل میں بات کرتا ہوں بعد میں۔" کمرے کے دروازے پر ایشل کو کھڑا دیکھ کر اس نے فون بند کرکے سائیڈ پر رکھ دیا تھا۔
"کس سے بات ہورہی تھی میرے آتے ہی کال بند کر دی؟" وہ چلتی ہوئی اس تک آئی تھی۔
"بجو اب تم شک کر رہی ہو اپنے معصوم شریف بھائی پر۔"
"معصوم ؟ شریف ؟ کدھر سے۔۔؟" اس نے جیسے یوشع کا مذاق اڑایا تھا۔
"ہر اینگل سے۔" بےنیازی تو ختم تھی اس پر۔۔ آخر شاہ زر کا بیٹا تھا۔
"سنو اپنی یہ فضول باتیں چھوڑو۔۔ میں یہ کہنے آئی تھی مما کو آوٹنگ پر لے کر چلتے ہیں اماں جان کو اس دنیا سے گئے دو ہفتے ہوگئے ہیں مگر دونوں گھر ویران سے ہوگئے ہیں۔ مما باہر نکلے گی تھوڑا فریش فیل کریں گی۔" ایشل کی بات پر یوشع نے بھی اتفاق کیا تھا۔
"بجو ! بابا کو تو اماں جان نے ہی پالا تھا وہ بتاتے نہیں ہیں لیکن ان کے لیے اماں جان ان کی سب کچھ تھیں۔۔ رات میں ہم سب چلیں گے۔"
"عقلمند ہوگئے ہو چھوٹو۔۔" ایشل نے اس کے بال بگاڑے تھے۔
" کتنی بار کہا ہے چھوٹو نہ بولا کریں۔ صرف دو سال۔۔ دو سال چھوٹا ہوں آپ سے۔" اس نے وکڑی کا نشان بناتے ہوئے بتایا۔
"اور ویسے بھی جب آپ کے ساتھ کھڑا ہوں تو پتہ بھی نہ لگے کہ میں آپ سے چھوٹا ہوں۔"
"اچھا ٹھیک ہے زیادہ اتارنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ گدھے جتنا لمبا قد ہے تمہارا۔"
"آپ کی معلومات میں اضافہ کر دوں گدھے کا قد لمبا نہیں ہوتا۔" وہ اسے زچ کر رہا تھا۔ اور وہ چڑ گئی تھی۔
"جس کا بھی ہوتا ہے بس تمہیں سمجھ آگئی ہے بہت ہے۔۔ مجھے بابا کی گاڑی کی چابی چاہیے تھی۔"
بات ہی بدل دی تھی۔
"کس لیے۔۔؟!" ابرو اچکائے وہ اپنے باپ جیسا ہی لگ رہا تھا۔
"یوشع مجھے بابا نے کہا ہے کہ کیز لے کر آؤں۔"
ایشل کے بتانے پر یوشع نے سائیڈ ڈرا کی طرف اشارہ کردیا مطلب خود نکال لو۔
"افف۔۔ پاس بیٹھے ہو ایک ہاتھ نہیں ہلا سکتے بڑی بہن کے لیے۔" وہ اٹھ کر سائیڈ ڈرا کے پاس آئی اور یوشع کو گھورا جو بازو باندھے ہنوز مطمئن بیٹھا تھا۔
وہ کھڑی تھی۔۔ یوشع کو کچھ عجیب لگا اس نے گردن گھما کر دیکھا تو ایشل کے ہاتھ میں وہ لاکٹ تھا۔ یوشع کے تاثرات بدلے۔
"یہ کیوں پکڑا ہے تم نے۔۔ یہ لو کیز اور جاؤ۔" ایشل کے تاثرات ابھی بھی نہیں بدلے تھے۔
"یہ کس کا ہے یوشع اور تمہارے پاس کیا کر رہا ہے؟ حیران صورت لیے وہ کھڑی تھی۔
"بجو مجھے نہیں پتہ کس کا ہے۔۔ مجھے یہ ایسے ہی گرا ہوا ملا تھا پارک میں۔۔ میں نے اٹھا لیا۔"
اس نے اتنے ہی اطمینان سے ساری بات بتا دی تھی۔
ایشل کے تاثرات ڈھیلے پڑے تھے۔
"اچھا ویسے دکھاؤ تو۔۔ کون ہے جس کی وجہ سے تم اسے اٹھا لائے ہو؟!" ایشل کے معنی خیزی پر یوشع چڑ گیا تھا۔
"ادھر دیں یہ مجھے۔۔" وہ اس کے پاس آکر بولا۔۔ ایشل کمرے سے باہر کی طرف بھاگی
"نہیں دے رہی۔۔" وہ اسے دیکھ کے ہنستے ہوئے بولی اور یوشع اس کے پیچھے آ رہا تھا جبھی کمرے سے نکلتے ہی وہ کسی وجود سے ٹکرائی تھی۔
یوشع نے آنکھیں میچ لی تھیں۔
لاکٹ ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرا تھا۔
ایشل نے سامنے نظریں اٹھا کر دیکھا تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ شاہ زر خود تھا۔
"یہ کیا تم دونوں نے بچوں کی طرح بھاگ دوڑ لگائی ہوئی ہے؟ اور یہ کس کا ہے؟
"بابا یہ میری دوست کا۔۔" ایشل کو کوئی اور بہانہ نہ ملا تو فوراً سے بولی جبکہ یوشع اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا تھا۔
شاہ زر نے جھک کر اٹھایا تھا وہ گرنے کی وجہ سے کھل گیا تھا۔۔ مگر جیسے ہی شاہ زر کی نظر لاکٹ کے اندر لگی تصویر پر پڑی وہ ساکت ہوگیا۔۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ یہ؟؟
مگر جلد ہی انہوں نے خود کو سنبھالا تھا۔
"یہ تمہیں کیسے ملا؟ اور یہ لڑکی تمہاری دوست ہے؟" شاہ زر نے ایشل سے پوچھا تھا۔۔ ایشل اور یوشع نے بروقت ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔
"بابا یہ مجھے پارک میں گرا ہوا ملا تھا۔۔ مجھے پتہ ہے مجھے نہیں اُٹھانا چاہیے تھا لیکن اسوقت مجھے یہی صحیح لگا۔" یوشع فوراً آگے آیا تھا۔۔وہ کبھی اپنے باپ سے جھوٹ بول ہی نہیں سکتے تھے۔
شاہ زر کی کیفیت غیر ہو رہی تھی۔۔ وہ الٹے قدم واپس مڑ گئے۔
لاکٹ یوشع کے ہاتھ میں تھا۔۔
"اب میری چیزوں کو ہاتھ نہیں لگانا۔۔" ایشل کو غصے سے کہتے وہ کمرے میں چلا گیا۔ مگر ایشل تو اپنے باپ کے تاثرات میں ہی کہیں الجھ گئی تھی۔۔ کچھ تھا جو وہ لوگ نہیں جانتے تھے۔۔ اس لاکٹ میں کچھ تھا۔ مگر کیا؟
___________________________________
"آج میں آپ کے دوست کی فیملی سے ملنے گئی تھی آبان کے ساتھ۔!" آنیا نے عریش کو بتایا تھا۔۔ وہ اس وقت ٹی وی دیکھ رہا تھا۔۔ وہ دونوں لاؤنج کے صوفے پر ہی بیٹھے ہوئے تھے۔
"ہمم اچھا کیا ملنے چلی گئی۔ حمزہ بھی ابھی اس دکھ سے نہیں نکلا۔"
"جی ظاہر ہے وقت تو لگتا ہے۔ اور پھر وہ گھر کی بزرگ تھیں۔" آنیا نے سرد آہ بھری۔
"آپکے دوست کے بڑے بھائی کی دو پیاری سی بیٹیاں ہیں دونوں جڑواں ہیں۔ ماشاءاللہ بہت ہی پیاری ہیں۔ ایک کو چشمہ لگا ہوا ہے وہ زیادہ کیوٹ ہے۔" آنیا کے ایسے اشتیاق سے بتانے پر جہاں عریش نے اچنبھے سے اپنی بیگم کو دیکھا تھا وہیں کسی پر ایک انکشاف ہوا تھا اور وہ اتنا شدید تھا کہ وہ ایک پل کے لیے کنگ رہ گیا۔۔ اس نہج پر تو اس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ ساری باتیں اسکے سامنے کھل کر واضح ہوگئی تھیں۔ دماغ کی سکرین پر کئی باتیں گردش کرنے لگ گئی تھیں۔
نہیں پتہ چل رہا تھا تو مہینوں لاعلم رہا اور جب سب معلوم ہوا تھا سیکنڈز نہیں لگے تھے۔
"خیریت آپ کو ان کی بیٹیاں پسند تو نہیں آگئیں؟ کیا چکر ہے؟"عریش سے بہتر آنیا کو کون جان سکتا تھا۔ آنیا کوئی جواب دیتی جب اس کی نظر اچانک اپنے سے کچھ فاصلے پر کھڑے آیان پر پڑی۔
"ارے آیان بیٹا۔! وہاں کھڑے کن سوچوں میں گم ہو؟!" اپنی امی کی آواز پر وہ سوچوں کے بھنور سے باہر نکلتا ان کی طرف متوجہ ہوا تھا۔
اپنے آپ کو قدرے سنبھالتے وہ ان تک آیا۔
"کچھ نہیں امی بس وہ میں سٹڈی روم سے اپنی کچھ فائلز اٹھانے آیا تھا۔ بابا مجھے آپ سے بھی ڈیٹیل میں ڈسکس کرنا ہے۔"
"ٹھیک ہے میں تھوڑا ریسٹ کروں گا پھر تم سے بات ہوتی ہے۔" وہ اس کا کندھا تھپتھپاتے وہاں سے نکل گئے۔ آنیا اب چینل سرچنگ کرنے لگی تھیں انہیں اب اپنی مطلب کی چیز دیکھنی تھی۔
___________________________________
رات کا آخری پہر تھا۔ کمرے میں سکوت سا طاری تھا۔ وہ بیڈ پر کروٹ کے بل گہری نیند سو رہی تھی۔ایسے میں اچانک اس ماحول کی خاموشی کو توڑتی چنگھاڑتی آواز بلند ہوئی تھی۔۔ وہ گہری نیند میں ہونے کے باوجود بری طرح ڈر کر اٹھی تھی یہ کیا تھا؟! آواز مسلسل اور کان کے پردے پھاڑ دینے والی تھی۔۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی یہ کیا چیز ہے ۔۔ حواس مجتمع ہوتے ہی پہلی بات جو اس کے دماغ میں آئی تھی۔۔ "الارم."
یہ الارم کلاک کس کا ہے؟" اس نے اپنے بیڈ پر ادھر ادھر ہاتھ مارا۔ ایک تو اندھیرے میں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔
جھنجھلاتے ہوئے اس نے بائیں طرف ہاتھ مارا تو وہ الارم کلاک اسے مل گیا اسے بند کرتے وہ غصے سے بیڈ سے اتری تھی۔
علجت میں ہی سلیپرز پہنتے اس کا رخ شہیر کے کمرے کی طرف تھا۔
دھڑ سے دروازہ کھولتے ہی اسکی نظر سامنے بےخبر سوئے شہیر پر پڑی تھی۔
"مجھے نیند سے جگا کر خود کیسے مزے سے پورا اصطبل بیچ کر سو رہا ہے؟! وہ آگے بڑھی اور کمرے کی ساری لائٹس آن کر دیں۔
اس کی طرف آتے ہی پری نے اسے بازو پر ایک چپت لگائی تھی۔
اس کی نیند ٹوٹی تھی۔ وہ اسے اپنے سامنے دیکھتے ہی اٹھ کر بیٹھ گیا۔
"تم مجھے اس بارے میں کچھ بتاؤ گے؟" وہ طیش میں کھڑی اس سے سوال کر رہی تھی۔ اشارہ الارم کلاک کی طرف تھا۔
"یہ تم ۔۔اس وقت میرے کمرے میں یہ پوچھنے آئی ہو۔ تمہیں نہیں پتہ یہ کیا کام کرتا ہے ؟" اس کی نظر وقت پر پڑی 4 بجنے کو تھے۔
"شہیر ڈرامے نہیں کرو تمہارے اس کلاک کی وجہ سے اتنا برا ڈر کر اٹھی ہوں میں ۔۔ یہ تم نے ہی رکھا تھا میرے سر پر۔" وہ غصے میں زیادہ ہی بول گئی۔
شہیر ہنسنے لگا تھا۔۔ پری نے برا سا منہ بنایا۔
"غلط بات تھی لڑائی میں یہ انسان ہنسا نہیں کرے۔۔ ہنستے ہوئے وہ پیارا لگتا تھا۔"
شہیر!!" وہ چڑ ہی تو گئی تھی۔
بکھرے بالوں میں ہاتھ چلا کر سیٹ کرتا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ تھوڑا پیچھے کھسکی تھی۔
"ہاں میں نے ہی لگایا تھا مجھے پتہ ہے تم فوراً میرے پاس آؤ گی۔ اور ٹائم دیکھو۔ فجر کی اذان ہونے والی ہے۔۔ اچھا ہے تم نے اٹھا دیا۔ چلو اب نماز پڑ لونگا۔ تم بھی پڑھ لو شاباش۔" اس کے سر پر ہلکا سا مارتے ہوئے وہ واش روم کی طرف جانے لگا۔ وہ تو اس کی بات سن کر منہ کھولے کھڑی تھی۔ ہوش آنے پر فوراً اس کی طرف مڑی تھی۔
"یہ بات تم مجھے رات میں آرام سے بھی کہتے میں تمہیں اٹھا سکتی تھی نا؟"
"میں جانتا ہوں نا تمہیں۔ تم مجھے اٹھاتی۔۔خود کبھی نہ اٹھتی۔" اطمینان سے کہا گیا۔
کیا وہ اسے اتنا جانتا تھا؟
"تم مجھے انسانوں والے طریقے سے اٹھا بھی تو سکتے تھے۔"
"بھئی میں شہیر ہوں اور میں ایسے ہی کام کرتا ہوں۔" کندھے اچکاتے ہوا واش روم میں گھس گیا۔ پری نے خود کو پر سکون کرنے کے لیے لمبی سانس لی تھی۔
"یہ کبھی نہیں سدھرے گا۔" وہ بھی مسکراتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چل دی۔ اٹھ تو وہ گئی تھی۔ اب نماز پڑھ کر ہی سوئے گی.
__________________________________
آج کی قسط لمبی تھی اور بتائیں اب آگے کیا ہوگا؟
نیکسٹ میں ایشل اور حارب کے سین بھی دکھا دوں گی۔
اپنی رائے ضرور دیا کریں۔🙏🏻
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Address
73 A Jaleel Abad Colony
Multan, 60000
شاعر ، ادیب اور صحافی رضی الدین رضی ۔ ۔ چارشعری مجموعوں
Multan, 446688
زندہ رہنے تک اِنسان کے ضمیر کواور مرنے کے بعد اِنسان کے کردار کو زندہ رہنا چاہیے
Nasheman Coloney
Multan, 60700
In this page u will see the videos and images to support PTI , i followed Imran khan
Multan
this page is about the politics and current news of the Pakistan and also about every incident
4
Multan
Diary Writes Diary is platform which offer best Thought's, introvert Quote's, Meaningful Post's and Life less وتعز من تشاء وتذل من تشاء Insan🖤...insanyat😇 🌸وما تشآءون الا ان یشاءا...
Multan, 34200
Islamic videos, 💞❤️🩹❤️ and Hadees share in this page, follow,like and share us.
Multan
�I 'm skin care consultant � &brand partner �with oriflame sweden� cosmetics ��compnay�