Moral And Spiritual World by Syed Saleem Shah

Serving as Superintending Engineer
Strong Believer Of Humility & Humbleness

31/08/2024

ایک نامرد کی بیوی کی کہانی:

میرا شوہر نامرد ہے اور مجھے خلع چاہیے۔ وہ نکاح ختم کروانے کا عام سا کیس تھا۔
اچھی پڑھی لکھی فیملی تھی۔ دو پیارے سے بچے تھے کیوٹ اور معصوم سے۔ لیکن خاتون بضد تھی کہ اسکو ہر حال میں خلع چاہیے، جبکہ میرا موکل یعنی کہ (شوہر) شدید صدمے کی کیفیت میں تھا۔
جج صاحب بھی پورا کیس سنتے وقت کبھی حیرانی سے شوہر کو دیکھتے اور کبھی اس کی بیوی کو تو کبھی ان کے ساتھ کھڑے دو بچوں کو۔
جج صاحب اچھے آدمی تھے۔ انہوں نے کہا کہ آپ میاں بیوی کو چیمبر میں لے جا کر صلح کی کوشش کرلیں شاید بات بن جائے۔ (شوہر) کا وکیل ہونے کے ناطے مجھے تو بہت خوشی ہوئی کیونکہ میں بحثیت وکیل یہ کیس ہار رہا تھا۔ میں نے فوری حامی بھر لی۔ جبکہ مدعیہ (بیوی) کے وکیل نے اس پر اچھا خاصہ ہنگامہ بھی کیا لیکن خاتون بات چیت کے لئیے راضی ہوگئی۔
چیمبر میں دونوں میاں بیوی میرے سامنے بیٹھے تھے:-
" ہاں خاتون ! آپ کو اپنے شوہر سے کیا مسئلہ ہے"؟ - -
"وکیل صاحب یہ شخص مردانہ طور پر کمزور ہیں اور نامرد ہیں۔"
میں اسکی بے باکی پر حی 5thران رہ گیا۔ میرے منہ سے ایک موٹی سی گندی سی گالی نکلتے نکلتے رہ گئی۔ البتہ منہ میں تو دے ہی ڈالی۔ ویسے تو کچہری میں زیادہ تر بے باک خواتین سے ہی واسطہ پڑتا ہے لیکن اس خاتون کی کچھ بات ہی الگ تھی۔
اسکے شوہر نے ایک نظر شکایت اس پر ڈالی اور میری طرف امداد طلب نظروں سے گھورنے لگا۔ میں تھوڑا سا جھلا گیا کہ کیسی عورت ہے ذرا بھی شرم حیا نہیں ہے۔ دو بچوں کی ماں ہو کر بھی اپنے شوہر کو نامرد کہہ رہی ہے۔
بہرحال میں نے بھی شرم و حیا کا تقاضا ایک طرف رکھا اور تیز تیز سوال کرنا شروع کر دیے۔
جب اس سے پوچھا :-
" کیا تمہارا اپنے شوہر سے گزارہ نہیں ہوتا؟
تو وہ بیوی کہنے لگی:
" ماشاءاللہ دو بچے ہیں ہمارے۔ یہ جسمانی طور پہ تو بالکل ٹھیک ہیں مگر پھر بھی نامرد ہیں۔"
مجھے اس کی بات سے حیرت کا جھٹکا لگا کہ بچے بھی ہیں اور نامرد بھی، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ عجیب عورت ہے۔
تو بی بی پھر مردانہ طور پر کمزور کیسے ہوئے؟
میں نے استفسار کیا۔۔۔
وکیل صاحب ! صرف ازدواجی زندگی سے اولاد ہو جائے یہ ہی مردانگی نہیں ہوتی بلکہ اور بھی ایسی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں میاں بیوی کے درمیان جس پر بیوی مرد سے مطمئن نہیں ہو پاتی اور مرد نا مرد ہی رہتا ہے۔
مجھے اس عورت کی منطق کسی بھی طرح سمجھ نہیں آئی تھی۔۔ مجھے حیرت تھی کہ وہ فقط مطمئن نہ ہونے پر کس طرح سے اپنے مرد کی عزت یوں کوٹ کچہری میں اچھال رہی ہے یہ معاملہ تو ان دونوں کے مابین بھی حل ہو سکتا تھا۔۔
میں نے اک نظر اٹھا کر اس کے شوہر کو دیکھا۔۔
جس کے چہرے پر اپنا سچ کھل جانے کا خوف لاحق تھا۔۔
آپ کو اگر خدا نے اولاد سے نواز رکھا ہے بی بی اور اگر یہ جسمانی طور پر بھی ٹھیک ہیں تو اگر آپ کو ان سب جے باوجود کسی دشواری کا سامنا ہے تو آپ ڈاکٹر سے رابطہ کر سکتی تھی یوں کوٹ کچہری آنا اس معاملے کا حل نہ تھا۔
میں نے غصے پر قابو کرتے جواب دیا
ان کی کمزوری کسی بھی ڈاکٹر سے دور نہ ہو سکتی تھی وکیل صاحب تبھی مجھے یہ راہ چننی پڑی۔۔
عجب عورت تھی اک تو انتہا کی بے باکی اوپر سے کمال کا کانفیڈینس۔ اور وجہ ایسی کہ کوئی اور ہوتا تو شرم سے ڈوب مرتا جانے یہ کیسی عورت تھی۔۔
اس کا حلیہ اس کی باتوں سے زرا نہ ملتا تھا مگر ہر کسی کے ماتھے پر تھوڑا ہی نہ لکھا ہوتا ہے کہ باطن بھی ظاہر جیسا ہے۔۔
بی بی ہر مسلے کا حل ہوتا ہے مجھے اب اس عورت پر غصہ آنے لگا تھا اور اس کے شوہر پر ترس۔۔
میں آپ کو ایک اچھے ڈاکٹر کا پتہ دیتا ہوں آپ وہاں جائیں سب بہتر ہو گا جہالت کی ضد میں آ کر گھر نہ توڑیں۔۔
میں نے اپنے غصے کو پس پشت ڈالتے اپنے فیملی ڈاکٹر کا ایڈریس دینے کا کہا جو کہ مردانہ کمزوری کا ماہر مانا جاتا تھا اور اپنی طرف سے ہر حد کوشش کر کے اس جاہل عورت کو اس اقدام سے روکنا چاہا۔۔
نہیں وکیل صاحب کبھی نہیں میں ان کا علاج کرانا دور ایسے مرد کے ساتھ اک منٹ نہیں رہوں گی۔۔
جانے وہ عورت کیوں اتنی ضد کر رہی تھی۔۔
جب آپ کی اولاد ہے تو پھر یہ بیماری اتنی بھی ںڑی بیماری نہیں۔ جانے آپ نے اس بیماری کو کیوں وجہ بنا رکھا ہے۔
اب کی بار میرا ضبط جواب دینے لگا تھا
بیماری ہے وکیل صاحب بیماری ہے۔۔
اب کی بار وہ بھی دبا دبا چلائی تھی۔۔
اگر ہے تو وضاحت کر دیں پھر۔۔
اگر وہ بے باک تھی اتنی تو اصل مدعے تک پہنچنے میں پھر میں نے بھی اپنی شرم اک طرف رکھی تھی۔۔
مگر جب وہ بولی تو مجھے حیرت اور شرمندگی کے سمندر نے آن گھیرا۔۔
صرف بچے پیدا کرنا ہی مردانگی نہیں ہوتی وکیل صاحب
میرے بابا دیہات میں رہتے ہیں اور زمینداری کرتے ہیں۔ پورا گاؤں کہتا ہے کہ ان جیسا مرد کبھی نہیں دیکھا۔ ماشاءاللہ گبھرو، بااخلاق اور انتہائی مدد کرنے والے انسان ہیں، ہمیشہ دوسروں کی بہو بیٹیوں کے سر پر ہاتھ رکھا۔
ہم دو بہنیں ہیں اور میرے والد نے ہمیں کبھی" دھی رانی" سے کم بلایا ہی نہیں جبکہ میرے شوہر مجھے" کتی " کہہ کے بلاتے ہیں - - -" یہ کونسی مردانہ صفت ہے وکیل صاحب ؟- - " اب بتائیں مرد میرے باپ جیسا شخص ہوا یا یہ کتی کہنے والا؟
مجھ سے کوئی چھوٹی موٹی غلطی ہوجائے تو یہ میرے پورے میکے کو ننگی ننگی گالیاں دیتے ہیں؟ - -" آپ ہی بتائیں جی اس میں میرے مائیکے کا کیا قصور ہے - - - یہ مردانہ صفت تو نہیں نا کہ دوسروں کی گھر والیوں کو گالی دی جائے - -
وکیل صاحب۔! میرے بابا مجھے شہزادی کہتے ہیں - - - اور یہ غصے میں مجھے " کنجری" کہتے ہیں - -
وکیل صاحب ! مرد تو وہ ہوتا ہے نا جو کنجری کو بھی اتنی عزت دے کہ وہ کنجری نہ رہے اور یہ اپنی بیوی کو ہی کنجری کہہ کر پکارتے ہیں - - - یہ کوئی مردانہ بات تو نہیں ہوئی نہ - - - ؟؟
وکیل صاحب اب آپ ہی بتائیں کیا یہ مردانہ طور پر کمزور نہیں ہیں" ؟ - -
میرا تو سر شرم سے جھک گیا تھا۔ اس کا شوہر بھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔
میری اس سوچ کو وہ عورت واقع ہی سچ ثابت کر گئی تھی کہ ضروری نہیں جیسا باطن ہو ویسا ہی ظاہر بھی ہو
" اگر یہی مسئلہ تھا تو تم مجھے بتا سکتی تھیں نا۔ مجھ پر اس قدر ذہنی ٹارچر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔۔" ؟
شوہر منمنایا۔۔۔
" آپ کو کیا لگتا ہے آپ جب میری ماں بہن کے ساتھ ناجائز رشتے جوڑتے ہیں تو میں خوش ہوتی ہوں۔۔؟ - -
اتنے سالوں سے آپکا کیا گیا یہ ذہنی تشدد برداشت کر رہی ہوں اس کا کون حساب دے گا؟ "
جب آپ میری بہن اور ماں کو اتنی گندی گندی گالیاں اور باتیں کرتے ہیں آپ کیا جانیں میرے دل پر کیا گزرتی ہے۔ لیکن ہر چیز کی حد ہوتی اب مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہوتا۔
بیوی کا پارہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔۔
خیر جیسے تیسے منت سماجت کر کے سمجھا بجھا کے انکی صلح کروائی ۔۔
میرے موکل نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ اب کبھی اپنی بیوی کو گالی نہیں دے گا اور پھر وہ دونوں چلے گئے۔ اب ان کے گھر کے سکون ہے، چھوٹے موٹے مسائل تو گھروں میں آتے رہتے ہیں لیکن اب ان کے گھر پہلے والے حالات نہیں ہیں۔
جب یہ واقعہ ہوا تو میں کافی دیر تک وہیں چیمبر میں سوچ بچار کرتا رہا کہ گالیاں تو میں نے بھی اس خاتون کو اس کے پہلے جواب پر دل ہی دل میں بہت دی تھیں تو شاید میں بھی نامرد ہوں اور شاید ہمارا معاشرہ نامردوں سے بھرا پڑا ہے۔آپکی عورت نےاپنے ارمانوں کا سہرا آپ کے سر پر باندھا ھے اس کا مان مت توڑیں۔۔۔۔بلکہ اس کی تربیت اپنے مزاج کے مطابق کریں

30/08/2024

خدا اُن دلوں میں بسیرا کرتا ہے جہاں سُکون ہو، ہمدردی ہو، لوگوں کے دلوں میں اِنسان اور جانوروں کے لئے رحم ہو۔ خدا وہاں رہتا ہے جہاں لوگ پیار و محبت کے گیت گاتے ہوں.

Photos from Moral And Spiritual World by Syed Saleem Shah's post 30/08/2024

روایتی اور ڈیجیٹل بجلی چوروں کو نہیں چھوڑیں گے، فیسکو کو عوام دوست اور منافع بخش ادارہ بنانے کا عزم کر رکھا ہے
ایس ای فیسکو سیکنڈ سرکل سید سلیم شاہ
روزنامہ پیغام و پیغام ڈیجیٹل ٹی وی.

13/08/2024

پینتیس منٹ کی فلائیٹ:

میں کھڑکی کے ساتھ بیٹھا تھا اور میرا دوست پہلی نشست پر تھا‘ درمیان کی سیٹ خالی تھی‘ میں نے ائیر ہوسٹس سے پوچھا ”کیا ہم دونوں اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں“ فضائی میزبان نے مسکرا کر جواب دیا ”سر یہ سیٹ بک ہے‘ آپ ٹیک آف کے بعد مسافر سے سیٹ ایڈجسٹ کر لیجئے گا“ ہم مسافر کا انتظار کرنے لگے‘ جہاز کے دروازے بند ہونے سے چند لمحے قبل وہ مسافر آگیا‘ وہ ایک لحیم شحیم بزرگ تھا‘ وہ شکل سے بیمار بھی دکھائی دے رہا تھا‘

میں نے اسے پیش کش کی آپ کھڑکی والی سیٹ لے لیں‘ ہم دوست اکٹھے بیٹھنا چاہتے ہیں مگر اس نے سر ہلا کر میری پیش کش مسترد کر دی اور وہ دھپ کر کے درمیان میں بیٹھ گیا‘ وہ دونوں سائیڈز سے باہر نکل رہا تھا‘ میں اس کی وجہ سے جہاز کی دیوار کے ساتھ پریس ہو گیاجبکہ میرا دوست سیٹ سے آدھا باہر لٹک گیا‘ موٹے آدمی کے جسم سے ناگوار بو بھی آ رہی تھی‘ وہ پورا منہ کھول کر سانس لے رہا تھا اور سانس کی آمدورفت سے ماحول میں بو پھیل رہی تھی‘ ہماری گفتگو بند ہو گئی‘ میں نے جیب سے تسبیح نکالی اور ورد کرنے لگا جبکہ میرا دوست موبائل فون کھول کر بیٹھ گیا‘ وہ میری زندگی کی مشکل ترین فلائیٹ تھی‘ میں نے وہ سفراذیت میں گزارا‘ ہم جب لاہور اترے تو میں نے اپنی ہڈیاں پسلیاں گنیں اور اطمینان کا سانس لیا‘ ہم ائیر پورٹ سے باہر آ گئے‘ میں نے اپنے دوست سے پوچھا ”سفر کیسا تھا“ وہ ہنس کر بولا ”زبردست‘ میں نے موبائل فون پر کتابیں ڈاؤن لوڈ کر رکھی ہیں‘ میں سفر کے دوران کتاب پڑھتا رہا“ میں نے پوچھا”کیا تم موٹے آدمی کی وجہ سے ڈسٹرب نہیں ہوئے“ وہ ہنس کر بولا ”شروع کے دو منٹ ہوا تھا لیکن پھر میں نے ایڈجسٹ کر لیا‘ میں نے اپنی کہنی اور پسلیاں اس کے پیٹ میں پھنسائیں اور چپ چاپ کتاب پڑھتا رہا“ میں نے پوچھا ”اور کیا تم اس کی بدبو سے بھی بیزار نہیں ہوئے“ وہ ہنس کر بولا ”شروع میں ہوا تھا لیکن میں جب کتاب میں گم ہو گیا تو بوآنا بند ہو گئی“ میں نے حیرت سے اس
کی طرف دیکھا اور پھر کہا ”لیکن میں پورے سفر کے دوران تنگ ہوتا رہا‘ میری سانس تک الجھتی رہی‘ میں اللہ سے دعا کرتا رہا یا اللہ یہ سفر
کب ختم ہوگا“ وہ ہنسا اور بولا ”میں بھی ایسی صورتحال میں پریشان ہوا کرتا تھا لیکن پھر میں نے اپنی پریشانی کا حل تلاش کر لیا‘ میں اب ایڈجسٹ کر لیتا ہوں“ میں رک گیا اور اسے غور سے دیکھنے لگا‘ وہ بولا ”ہم اس موٹے کے صرف 35 منٹ کے ساتھی تھے‘ وہ آیا‘ بیٹھا‘ جہاز اڑا‘ جہاز اترا اور ہم الگ الگ ہو گئے‘ وہ کون تھا‘ وہ کہاں سے آیا تھا اور وہ کہاں چلا گیا‘
ہم نہیں جانتے‘ تم اگر ان 35 منٹوں کو ایڈجسٹ کر لیتے تو تم تکلیف میں نہ آتے“ وہ رکا‘ لمبی سانس لی اور بولا ”ہماری ہر تکلیف کا ایک ایکسپائری ٹائم ہوتا ہے‘ ہم اگر اس ٹائم کا اندازہ کر لیں تو پھر ہماری تکلیف کم ہو جاتی ہے مثلاً وہ موٹا جب ہمارے درمیان بیٹھا تو میں نے فوراً ٹائم کیلکولیٹ کیا‘مجھے اندازہ ہوا یہ صرف 35 منٹ کی تکلیف ہے چنانچہ میں نے موٹے کے موٹاپے پر توجہ کی بجائے کتاب پڑھنا شروع کر دی‘ میری تکلیف چند منٹوں میں ختم ہو گئی‘ تم بھی تکلیف کے دورانئے کا اندازہ کر لیا کرو‘ تمہاری مشکل بھی آسان ہو جائے گی“۔

میں نے اس سے پوچھا ”تم نے یہ آرٹ کس سے سیکھا تھا“ وہ ہنس کر بولا ”میں نے یہ فن اپنے والد سے سیکھا تھا‘ میرے بچپن میں ہمارے ہمسائے میں ایک پھڈے باز شخص آ گیاتھا‘ ہم لوگ گلی میں کرکٹ کھیلتے تھے اور وہ ہماری وکٹیں اکھاڑ دیتا تھا‘ ہمارے گیند چھین لیتا تھا‘ وہ گلی میں نکل کر ہمارا کھیل بھی بند کرا دیتا تھا‘ میں بہت دل گرفتہ ہوتا تھا‘ میں نے ایک دن اپنے والد سے اس کی شکایت کی‘ میرے والد نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا‘ بیٹا یہ شخص کرائے دار ہے‘ یہ آیا ہے اور یہ چلا جائے گا‘

ہمیں اس سے لڑنے اور الجھنے کے بجائے اس کے جانے کا انتظار کرنا چاہیے‘ میں نے والد سے پوچھا‘ کیا میں احتجاج بھی نہ کروں‘ وہ بولے ہاں تم ضرور کرو لیکن اس کا تمہیں نقصان ہوگا‘یہ شخص تو اپنے وقت پر جائے گالیکن تم احتجاج کی وجہ سے بدمزاج ہو چکے ہو گے‘ تم اس کے بعد لائف کو انجوائے نہیں کر سکو گے چنانچہ میرا مشورہ ہے تم اپنی لائف پر فوکس کرو‘ تم اپنی خوشیوں پر دھیان دو‘ یہ اور اس جیسے لوگ آتے اور جاتے رہیں گے‘ یہ آج ہیں اور کل نہیں ہوں گے‘

تمہیں اپنا مزاج خراب کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں بچہ تھا میں نے اپنے والد کی بات سے اتفاق نہ کیا لیکن ہمارا ہمسایہ واقعی دو ماہ بعد چلا گیا اور یوں ہم پرانی سپرٹ کے ساتھ گلی میں کھیلنے لگے‘ ہم دو ہفتوں میں اس چڑچڑے کھوسٹ کو بھول بھی گئے۔ میرے والد مجھے بچپن میں اپنے چچا کی بات بھی سنایا کرتے تھے‘ ہمارے دادا فوت ہوئے تو میرے والد کو وراثت میں ایک مکان ملا‘ مکان پر میرے والد کے چچا نے قبضہ کر لیا‘ میرے والد نے چچا کے ساتھ لڑنے کی بجائے ملکیت کا مقدمہ کیا اور وہ آہستہ آہستہ مقدمہ لڑتے رہے‘

پانچ سال بعد میرے والد کے حق میں فیصلہ ہو گیا لیکن چچا نے مکان خالی نہ کیا‘ میرے والد نے قبضے کے حصول کیلئے درخواست دی اور وہ آہستہ آہستہ اس درخواست کا پیچھا کرتے رہے‘ اگلے دو برسوں میں والد کے چچا کا انتقال ہو گیا‘ والد کو مکان مل گیا‘ میرے والد کا کہنا تھا‘ چچا نے جب ہمارے مکان پر قبضہ کیا تو مجھے بہت غصہ آیا لیکن پھر میں نے سوچا‘ میں اگر ان کے ساتھ لڑتا ہوں تو میں زخمی ہو جاؤں گااور یوں یہ مکان پیچھے چلا جائے گا اور دشمنی آگے آ جائے گی‘ ہم تھانوں اور کچہریوں میں بھی جائیں گے‘


ہمارا وقت اور پیسہ بھی برباد ہو گا اور ہمیں مکان بھی نہیں ملے گا‘ چچا بوڑھے شخص ہیں‘ یہ کتنی دیر زندہ رہ لیں گے چنانچہ میں نے مقدمہ کیا اور آہستہ آہستہ مقدمہ چلاتا رہا یہاں تک کہ چچا طبعی زندگی گزار کرفوت ہو گئے‘ مجھے اپنا مکان بھی مل گیا اور میرے صبر کا صلہ بھی۔ میرے چچا نے جب مکان پر قبضہ کیا تھا تو وہ فقط ایک مکان تھا‘ آٹھ برسوں میں ہماری گلی کمرشلائزڈ ہو گئی‘ مکان کی قیمت میں بیس گنا اضافہ ہو گیا یوں مجھے مکان بھی مل گیا اور مالیت میں بھی بیس گنا اضافہ ہو گیا‘

میں اس دوران اطمینان سے اپنے دفتر بھی جاتا رہا‘ میں نے اپنے بچے بھی پال لئے اور میں زندگی کی خوشیوں سے بھی لطف اندوز ہوتا رہا‘ میرے والد مجھے یہ واقعہ سنانے کے بعد اکثر کہا کرتے تھے آپ جب بھی تکلیف میں آئیں آپ اس تکلیف کا دورانیہ کیلکولیٹ کریں اور اپنی توجہ کسی تعمیری کام پر لگا دیں‘ آپ کو وہ تکلیف تکلیف نہیں لگے گی‘ میں نے اپنے والد کی بات پلے باندھ لی چنانچہ میں تکلیف کا دورانیہ نکالتا ہوں اور اپنی توجہ کسی تعمیری کام پر مبذول کر لیتا ہوں“ وہ خاموش ہو گیا۔

یہ نقطہ میرے لئے نیا بھی تھا اور انوکھا بھی‘ میں نے اس سے پوچھا ”کیا یہ تمہاری روٹین ہے“ وہ قہقہہ لگا کر بولا ”ہاں مجھے جب بھی کوئی تکلیف دیتا ہے میں دل ہی دل میں کہتا ہوں یہ آج کا ایشو ہے‘ یہ کل نہیں ہوگا‘ میں اس کی وجہ سے اپنا آج اور کل کیوں برباد کروں اور میری تکلیف ختم ہو جاتی ہے“ میں نے پوچھا ”مثلاً“ وہ بولا ”مثلاً وہ موٹا شخص صرف 35 منٹ کی تکلیف تھا‘ ہم نے صرف 35 منٹ گزارنے تھے اور اس تکلیف نے ہماری زندگی سے نکل جانا تھا‘ مثلاً کوئی شخص میرے ساتھ دھوکہ کرتا ہے‘

میں اس شخص اور دھوکے دونوں پر قہقہہ لگاتا ہوں اور آگے چل پڑتا ہوں‘ یقین کرو وہ دھوکہ اور وہ شخص دونوں چند دن بعد میرے لئے بھولی ہوئی داستان بن چکے ہوتے ہیں‘ مجھے کیریئر میں بے شمار مشکل باس اور مشکل کولیگز ملے‘ میں ہر مشکل باس کو دیکھ کر کہتا تھا‘ یہ آیا ہے اور یہ چلا جائے گا‘ مجھے اپنی زندگی برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں مشکل کولیگ پر بھی ہمیشہ سوچتا رہا‘ یہ مختصر سفر کا مختصر ترین مسافر ہے‘ یہ اپنی منزل پر اترجائے گا یا پھر میں اپنے سٹاپ پرچلا جاؤں گا‘ مجھے اس سے لڑنے کی کیا ضرورت ہے‘ آپ یقین کرو میرے مشکل باس بھی چلے گئے اور مشکل کولیگز بھی اور یوں میرا سفر جاری رہا‘ میری زندگی مزے سے گزری اور مزے سے گزر رہی ہے“ وہ رکا‘ ہنسا اور بولا ”آپ بھی یہ حقیقت پلے باندھ لو‘ زندگی 35 منٹ کی فلائیٹ ہے‘ آپ ساتھی مسافر کی وجہ سے اپنا سفر خراب نہ کرو‘ آپ تکلیف کا دورانیہ دیکھو اور اپنی توجہ کسی دوسری جانب مبذول کر لو‘ آپ کی زندگی بھی اچھی گزرے گی“ میں نے ہاں میں سر ہلایا‘

وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا اور میں اپنے دفتر چلا گیا لیکن وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں جب بھی کسی مسئلے‘ کسی تکلیف کا شکار ہوتا ہوں‘ میں دل ہی دل میں دوہراتا ہوں یہ 35 منٹ کی فلائیٹ ہے‘ یہ ختم ہو جائے گی اور میں جلد اس تکلیف کو بھول جاؤں گا‘مجھے کل یہ یاد بھی نہیں رہے گامیں کبھی ایک ایسے مسافر کے ساتھ بیٹھا تھا جس کی وجہ سے میرا سانس بند ہو گیا تھا اور جس نے مجھے پوسٹر کی طرح دیوار کے ساتھ چپکا دیا تھا‘ زندگی کا سفر انتہائی مختصر ہے‘ ہم اگر اس مختصر سفر کو شکایت دفتر بنالیں گے تو یہ مختصر سفر مشکل ہو جائے گا‘ ہم اپنی منزل سے ہزاروں میل پیچھے اترجائیں گے چنانچہ جانے دیں‘ تکلیف دینے والوں کو بھی, دھوکہ دینےوالوں کو بھی اور اپنے آپ کو بھی‘ صرف سفر پر توجہ دیں اور یقین کریں ہماری مشکل‘ ہماری تکلیف ختم ہو جائے گی

02/08/2024

محبت جب پرکھتی ہے کسی دلچسپ حیلے سے
کسی کا ظرف جاتا ہے, کسی کی لاج جاتی ہے

امیر خسرو نےخواجہ نظام الدین سے پوچھا کہ۔۔۔
‏"محبت میں مصیبت کیوں ہوتی ہے؟"
‏خواجہ نے فرمایا، "اس لیے کہ ہر کم ظرف اسکا دعوی نہ کرے"

02/08/2024

‏خاموشی سے بڑی کوئی چیخ نہیں ۔۔
ہر گالی ، ہر تہمت ، اور ہر بد خوئی
کا جواب دینا ضروری بھی نہیں ہوتا ۔۔!!

عربوں کی ایک عادت رہی ہے۔ جب ان کے گھوڑے زیادہ ہوجاتے اور ان کی نسلوں کی پہچان ممکن نہ رہ پاتی تو سبھی گھوڑوں کو کسی ایک مقام پر جمع کر لیتے۔ پھر کھانا پینا بند کر دیتے اور شدید قسم کی مارپیٹ کرتے۔ مار پیٹ کے بعد پھر گھوڑوں کے لئے کھانا پینا لاتے، تب گھوڑے دو مجموعوں میں بٹ جاتے تھے۔ کچھ گھوڑے تو فورا دوڑتے کھانے کی طرف، انہیں کچھ فرق نہیں پڑتا تھا کہ کھلا کون رہا ہے اور دوسرے ہوتے نسلی گھوڑے، جو ان ہاتھوں سے کھانا کھانے سے انکار کر دیتے تھے جن ہاتھوں نے مار پیٹ کر کے ان کی توہین کی تھی۔

انسانی معاشروں کو بھی اسی صورت حال کا سامنا ہے۔ اور بدقسمتی سے بدنسلوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے.

28/07/2024

منزلیں ہمیشہ بہادروں کا استقبال کرتی ہیں۔ بزدلوں کو تو راستوں کا خوف ہی مار دیتا ہے۔

28/07/2024

ایک مرید نے مولانا روم سے چند سوالات پوچھے جن کے انہوں نے بہت خوبصورت مختصر اور جامع جوابات عطا فرمائے جو بالترتیب پیشِ خدمت ہیں:
1- زہر کسے کہتے ہیں؟
ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زائد ہو، وہ ہمارے لئے زہر ہے خواہ وہ قوت و اقتدار ہو، دولت ہو، بھوک ہو،انانیت ہو، لالچ ہو، سستی و کاہلی ہو، محبت ہو، عزم و ہمت ہو، نفرت ہو یا کچھ بھی ہو۔
2- خوف کس شئے کا نام ہے؟
غیرمتوقع صورتِ حال کو قبول نہ کرنے کا نام خوف ہے۔ اگر ہم غیر متوقع کو قبول کر لیں تو وہ ایک ایڈونچر ایک مہم جوئی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
3- حسد کسے کہتے ہیں؟
دوسروں میں خیر اور خوبی کو تسلیم نہ کرنے کا نام حسد ہے۔ اگر ہم اس خوبی کو تسلیم کرلیں تو یہ رشک اور انسپریشن بن کر ہمارے لئے ایک مہمیز کا کام انجام دیتی ہے۔
4- غصہ کس بلا کا نام ہے؟
جو امور ہمارے قابو سے باہر ہوجائیں، ان کو تسلیم نہ کرنے کا نام غصہ ہے۔ اگر ہم تسلیم کرلیں تو عفو درگزر اور تحمل اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔
5- نفرت کسے کہتے ہیں ؟
کسی شخص کو جیسا کہ وہ ہے، تسلیم نہ کرنے کا نام نفرت ہے۔ اگر ہم غیر مشروط طور پر اسے تسلیم کرلیں تو اسے محبت کہیں گے۔

27/07/2024

بادشاہ عبدالملک بن مروان بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا- اس کی نظر ایک نوجوان پر پڑی- جس کا چہرہ بہت پُر وقار تھا- مگر وہ لباس سے مسکین لگ رہا تھا- عبدالملک نے پوچھا، یہ نوجوان کون ہے۔ تو اسے بتایا گیا کہ اس نوجوان کا نام سالم ہے اور یہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیٹا اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا پوتا ہے۔
خلیفہ عبدالملک کو دھچکا لگا۔ اور اُس نے اِس نوجوان کو بلا بھیجا-
عبدالملک نے پوچھا کہ بیٹا میں تمہارے دادا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بڑا مداح ہوں۔ مجھے تمہاری یہ حالت دیکھ کر بڑا دکھ ہوا ہے۔ مجھے خوشی ہو گی اگر میں تمھارے کچھ کام آ سکوں۔ تم اپنی ضرورت بیان کرو۔ جو مانگو گے تمہیں دیا جائے گا-
نوجوان نےجواب دیا، اے عبدالملک بادشاہ! میں اس وقت اللہ کے گھر بیتُ اللّٰہ میں ہوں اور مجھے شرم آتی ہے کہ اللہ کے گھر میں بیٹھ کر کسی اور سے کچھ مانگوں۔

عبدالملک نے اس کے پُرمتانت چہرے پر نظر دوڑائی اور خاموش ہو گیا۔
بادشاہ نے اپنے غلام سے کہا- کہ یہ نوجوان جیسے ہی عبادت سے فارغ ہو کر بیتُ اللّٰہ سے باہر آئے، اسے میرے پاس لے کر آنا-
سالم بن عبداللہؓ بن عمرؓ جیسے ہی فارغ ہو کر حرمِ کعبہ سے باہر نکلے تو غلام نے اُن سے کہا کہ بادشاہ نے آپکو یاد کیا ہے۔
سالم بن عبداللہؓ خلیفہ کے پاس پہنچے۔
عبدالملک نےکہا،
نوجوان! اب تو تم بیتُ اللّٰہ میں نہیں ہو، اب اپنی حاجت بیان کرو۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں تمہاری کچھ مدد کروں۔
سالم بن عبداللہؓ نےکہا،
اے بادشاہ! آپ میری کونسی ضرورت پوری کر سکتے ہیں، دنیاوی یا آخرت کی؟
بادشاہ نےجواب دیا،
کہ میری دسترس میں تو دنیاوی مال و متاع ہی ہے۔ سالم بن عبداللہؓ نے جواب دیا- امیر المؤمنین! دنیا تو میں نے کبھی اللّٰہ سے بھی نہیں مانگی۔ جو اس دنیا کا مالکِ کُل ہے۔ آپ سے کیا مانگوں گا۔ میری ضرورت اور پریشانی تو صرف آخرت کے حوالے سے ہے۔ اگر اس سلسلے میں آپ میری کچھ مدد کر سکتے ہیں تو میں بیان کرتا ہوں۔
خلیفہ حیران و ششدر ہو کر رہ گیا-
اور کہنے لگا- کہ نوجوان یہ تُو نہیں، تیرا خون بول رہا ہے۔
بادشاہ عبدالملک کو حیران اور ششدر چھوڑ کر سالم بن عبداللہؓ رحمہ اللّٰہ وہاں سے نکلے اور حرم سے ملحقہ گلی میں داخل ہوئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

27/07/2024

ﮨﻢ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﮐﺘﻨﮯ ﻋﺠﯿﺐ ﮨﯿﮟ ... ﮨﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻦ ﭘﺴﻨﺪ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺩﻋﺎﺅﮞ ﮐﯽ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﺑﮭﯽ ﻣﻦ ﭼﺎﮨﯽ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ .... ﮨﻢ ﺩﻋﺎ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﮮ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﺗﻮ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﮐﺮ ﺩﮮ ﺗﻮ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﭘﮧ ﻗﺎﺩﺭ ﮨﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﺑﮭﯽ ﮐﺮ ﺩﮮ ... ﯾﻌﻨﯽ ﮨﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﮨﻮﮮ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﺑﮭﯽ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮨﯽ ﮐﺮ ﺩﮮ ..... ﮨﻢ ﻭﺍﺳﻄﮧ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺗﻮ ﻧﮯ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﮒ ﮐﻮ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ... ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺳﻤﺎﻋﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﭼﮭﺮﯼ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺳﮯ ﺯﻧﺪﮦ ﻧﮑﺎﻝ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﮐﯿﺎ ... ﺟﯿﺴﮯ ﺗﻮ ﻧﮯ ﯾﻮﺳﻒ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﭖ ﺳﮯ ﻣﻠﻮﺍ ﺩﯾﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺗﻮ ﻧﮯ ﯾﻌﻘﻮﺏ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﺑﯿﻨﺎﺉ ﻟﻮﭨﺎ ﺩﯼ ... ﺟﯿﺴﮯ ﺗﻮ ﻧﮯ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﻮ ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ ﻗﻠﺰﻡ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺩﯾﺎ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺗﻮ ﮐﻮﺉ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮭﯽ ﮐﺮ ﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺩﻋﺎ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻟﮯ ...... ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺳﻮﭼﺎ ﮨﮯ ﺍﮎ ﭘﻞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮭﯽ ... ﮐﮧ ﮨﻢ ﺟﻦ ﮐﺎ ﻭﺍﺳﻄﮧ ﺩﮮ ﮐﺮ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﻣﺎﻧﮓ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻃﺮﺯِ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ .... ﺍﻥ ﮐﺎ ﻃﺮﺯِ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺲ ﯾﮩﯽ ﺗﮭﺎ
ﻭَﺃُﻓَﻮِّﺽُ ﺃَﻣْﺮِﻱ ﺇِﻟَﻰ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺩﻋﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﮕﯽ ﺗﮭﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﮨﺮﻃﺮﺡ . ﮐﮯ . ﺣﺎﻻﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺁﭖ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﺳﻮﻧﭗ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ .... ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺁﭖ ﺳﻮﻧﭗ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﭘﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﭘﮭﺮ ﭼﺎﮨﮯ ﻭﮦ ﺁﮒ ﻣﯿﮟ ﺟﻼ ﺩﮮ ﯾﺎ ﺁﮒ ﭨﮭﻨﮉﯼ ﮐﺮ ﺩﮮ
ﮔﻠﮯ ﭘﮧ ﭼﮭﺮﯼ ﭼﻠﻮﺍ ﺩﮮ ﯾﺎ ﺑﭽﺎ ﻟﮯ
ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﺎﻝ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﮐﺮ ﺩﮮ ﯾﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﺖ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﺩﮮ
ﺑﯿﻨﺎﺉ ﭼﮭﯿﻦ ﻟﮯ ﯾﺎ ﺑﯿﻨﺎﺉ ﻟﻮﭨﺎ ﺩﮮ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﭘﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﺪﺍﺉ ﻣﯿﮟ ﺗﮍﭘﺎﺋﮯ ﯾﺎ ﻣﻼ ﺩﮮ
ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﻨﺎ ﺩﮮ ﯾﺎ ﻧﮧ ﺑﻨﺎﺋﮯ
ﻭﮦ ﺳﺐ ﭘﮭﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﭼﺎﮦ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﮨﮯ .. ﻭﮦ ﺟﻮ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ﻭﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﮨﮯ ... ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﭙﺮﺩ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺳﻮﻧﭗ ﺩﯾﺎ ﮨﻮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﺎﮦ ﭘﮧ ﺟﮭﮏ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ..... ﺟﻮ ﺟﮭﮑﻨﺎ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻧﮩﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﻌﺠﺰﮮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ...
ﻣﻌﺠﺰﮦ ﻣﻦ ﭼﺎﮨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ..... ﻣﻌﺠﺰﮦ ﺗﻮ ﺭﺏ ﭼﺎﮨﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ..

21/07/2024

ایک عورت اپنے شوہر کے تنگ حالات کی بنا پر ایک خوشحال آدمی کے گھر گئی اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک خادم باہر آیا اور اس سے پوچھا:

"تم کیا چاہتی ہو؟"

عورت نے کہا: "میں تمہارے مالک سے ملنا چاہتی ہوں۔"

خادم نے پوچھا: "تم کون ہو؟"

عورت نے کہا: "اسے بتاؤ کہ میں اس کی بہن ہوں۔"

خادم جانتا تھا کہ اس کے مالک کی کوئی بہن نہیں ہے، تو وہ اندر گیا اور اپنے مالک سے کہا:

"دروازے پر ایک عورت ہے جو دعویٰ کرتی ہے کہ وہ آپ کی بہن ہے۔"

مالک نے کہا: "اسے اندر لے آؤ۔"

عورت اندر آئی، مالک نے اسے خوش دلی سے استقبال کیا اور پوچھا: "تم میرے کس بھائی کی بہن ہو؟ اللہ تم پر رحم کرے۔"

عورت نے کہا: "میں آدم کی بیٹی ہوں۔"

خوشحال آدمی نے اپنے دل میں سوچا: "یہ عورت واقعی بے یارو مددگار ہے، میں پہلا شخص ہوں گا جو اس کی مدد کرے گا۔"

عورت نے کہا: "اے میرے بھائی، شاید آپ جیسے لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ غربت کا ذائقہ کتنا کڑوا ہوتا ہے۔ اسی غربت کی وجہ سے میں اپنے شوہر کے ساتھ طلاق کے دروازے پر کھڑی ہوں۔ کیا آپ کے پاس کچھ ہے جو آپ قیامت کے دن کے لیے دے سکیں؟ آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ ختم ہو جائے گا، لیکن جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہے گا۔"

خوشحال آدمی نے کہا: "دوبارہ کہو۔"

عورت نے کہا: "اے میرے بھائی، شاید آپ جیسے لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ غربت کا ذائقہ کتنا کڑوا ہوتا ہے۔ اسی غربت کی وجہ سے میں اپنے شوہر کے ساتھ طلاق کے دروازے پر کھڑی ہوں۔ کیا آپ کے پاس کچھ ہے جو آپ قیامت کے دن کے لیے دے سکیں؟ آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ ختم ہو جائے گا، لیکن جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہے گا۔"

خوشحال آدمی نے کہا: "دوبارہ کہو۔"

عورت نے تیسری بار کہا، پھر خوشحال آدمی نے چوتھی بار کہا: "دوبارہ کہو۔"

عورت نے کہا: "مجھے نہیں لگتا کہ آپ نے مجھے سمجھا ہے، اور دوبارہ کہنا میرے لیے ذلت ہے۔ میں نے کبھی اپنے آپ کو اللہ کے سوا کسی اور کے سامنے ذلیل نہیں کیا۔"

خوشحال آدمی نے کہا: "اللہ کی قسم، مجھے تمہاری بات کی خوبصورتی پسند آئی۔ اگر تم ہزار بار بھی دہراتی تو میں ہر بار کے بدلے تمہیں ہزار درہم دیتا۔"

پھر اس نے اپنے خادموں سے کہا: "اسے دس اونٹ، دس اونٹنیاں، جتنی چاہے بھیڑیں، اور جتنا چاہے مال و دولت دے دو تاکہ ہم قیامت کے دن کے لیے کچھ کام کریں۔ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ ختم ہو جائے گا، لیکن جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہے گا۔"

17/07/2024

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدایا کیا کِیا تُو نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صدائے تشنگاں اب تک معلق ہے ہواؤں میں
فضاؤں سے خلاؤں تک لہو کی کندہ کاری ہے
پرندوں اور پیڑوں پر بلا کا خوف طاری ہے
شبِ گِریہ ہے اور ہر آنکھ سے اِک نہرجاری ہے
زمینوں آسمانوں پر یہ ساری رات بھاری ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہیں خاکِ محبت کا سیہ ملبوس میں ماتم
کہیں افلاک تک اُٹھتی ہیں لہریں بحرِ گِریہ کی
کہیں پاتال تک ڈوبا ہُوا دل خوں کی موجوں میں
کہیں شورِ جفا برپا ہُوا باطل کی فوجوں میں
کوئی آنسو کوئی نوحہ کوئی گِریہ کوئی ماتم
مداوا ہو تو کیسے ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر تاریخ اپنے آپ کو دہرائے تو دیکھیں
فلک نے کیسے دیکھا تھا تماشا حق و باطل کا
تڑپتے جسم تھے تپتے ہُوئے صحرا پہ سجدے میں
اذانِ درد سے سارے فلک پر تال پڑتی تھی
جفا نے ابتلا سے ابتدا کی ۔۔۔۔۔۔انتہا کر دی
وفا نے کربلا سے برملا تجھ کو صدائیں دیں
جواباً خامشی گونجی
صدائے کُن نہیں آئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرشتے منتظر اک اذن کے اور دم بخود سارے
سب اعجازو کرامت کے وسیلے دسترس میں تھے
طلسماتی ، کرشماتی قویٰ سب تیرے بس میں تھے
کٹی اک ایک گردن پر جلال آیا نہیں تجھ کو
کمالِ ضبط سے سب کچھ گوارا کر لیا تُو نے
فلک کی اوٹ سے سارا نظارا کر لیا تُو نے
خدایا کیا کِیا تُو نے
خدایا کیاکیا تُو نے.......

17/07/2024

لباس ہے پھٹا ہوا، غُبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ کون حق پرست ہے، مئے رضائے مست ہے
کہ جس کے سامنے کوئی بلند ہے نہ پست ہے
اُدھر ہزار گھات ہے، مگر عجیب بات ہے
کہ ایک سے ہزار کا بھی حوصلہ شکست ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ جسکی ایک ضرب سے، کمالِ فنّ ِ حرب سے
کئی شقی گرئے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
غضب ہے تیغِ دوسرا کہ ایک ایک وار پر
اُٹھی صدائے الاماں زبانِ شرق وغرب سے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

عبا بھی تار تار ہے، تو جسم بھی فگار ہے
زمین بھی تپی ہوئی فلک بھی شعلہ بار ہے
مگر یہ مردِ تیغ زن، یہ صف شکن فلک فگن
کمالِ صبر و تن دہی سے محوِ کارزار ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

دلاوری میں فرد ہے، بڑا ہی شیر مرد ہے
کہ جس کے دبدبے سے رنگ دشمنوں کا زرد ہے
حبیبِ مُصطفیٰ ہے یہ، مجاہدِ خدا ہے یہ
جبھی تو اس کے سامنے، یہ فوج گرد گرد ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

اُدھر سپاہِ شام ہے، ہزار انتظام ہے
اُدھر ہیں دشمنانِ دیں، اِدھر فقط اِمام ہے
مگر عجیب شان ہے غضب کی آن بان ہے
کہ جس طرف اُٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

Photos from Moral And Spiritual World by Syed Saleem Shah's post 16/07/2024

مکہ سے کربلا تقریباً 1731 کلومیٹر ہے۔

یہ فاصلہ گوگل میپ کے مطابق 18 گھنٹے بذریعہ مشینری مطلب گاڑی وغیرہ میں طے کیا جا سکتا ہے مگر آج سے1381 سال پہلے یہ فاصلہ ایک مُشکل اور تکلیف دہ راستہ تھا، جس پر امام حُسین علیہ السلام نے اپنا سفر 8 ذلحج 60 حجری یعنی 10 ستمبر 680 عیسوی کو اپنے اہل خانہ کیساتھ شروع کیا۔

سفر شروع کرنے کے بعد تاریخ کی کتابوں میں 14 مختلف مقامات کا ذکر ملتا ہے، جہاں امام نے یا پڑاؤ کیا یا مختلف لوگوں سے ملے اور یا لوگوں سے خطاب کیا۔۔
اس آرٹیکل میں ان 14 مقامات کا سرسری ذکر کیا جائے گا تاکہ جو لوگ نہیں جانتے اُنہیں سفر اور راستے کی تھوڑی آگاہی ہوسکے۔

نمبر 1: الصفا

یہ پہلا مقام تھا امام اس جگہ پر عرب کے مشہور شاعر الفرزدق سے ملے اور اُس سے کوفہ کے حالات پُوچھے ، شاعر بولا ” کوفہ والوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور اُن کی تلواریں آپ کے خلاف ہیں”۔
شاعر نے امام کو کوفہ جانے سے روکا، مگر امام اپنا سفر شروع کر چُکے تھے۔

نمبر 2: ذات عرق

مکہ سے کوفہ جاتے ہُوئے یہ دوسرا مقام ہے جو مکہ سے تقریباً 92 کلومیٹر پر ہے، اس مقام پر امام اپنے کزن عبداللہ ابن جعفر سے ملے اور اس مقام پر عبداللہ ابن جعفر نے اپنے دونوں بیٹوں عون اور مُحمد کو امام کی خدمت میں پیش کیا اور ساتھ ہی امام کو کوفہ جانے سے روکا، جس پر امام نے جواب دیا:
”میری منزل اللہ کے ہاتھ میں ہے”۔

نمبر 3: بطن الروما۔

یہ مقام ذات عرق سے کُچھ کلومیٹر آگے ہے یہاں امام نے قیس بن مشیر کے ہاتھ کوفہ والوں کو خط لکھا اور یہاں امام کی مُلاقات عبداللہ بن مطیع سے ہُوئی جو عراق سے آرہا تھا۔ عبداللہ نے امام کو آگے جانے سے روکا اور بولا ” کوفہ والوں پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا وہ اہل وفا میں سے نہیں" مگر امام نے اپنا سفر جاری رکھا۔

نمبر 4: زرود۔

حجاز کی پہاڑیوں پر یہ ایک چھوٹا سا ٹاون تھا اور یہاں پر حجاز کی پہاڑیوں کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے اور عرب کا تپتا ریگستان شروع ہوتا ہے۔ یہاں امام کی مُلاقات زُہیر ابن القین سے ہُوئی۔ اُسے جب پتہ چلا کہ امام کس مقصد کے لیے جارہے ہیں تو اُس نے اپنا تمام سامان اپنی بیوی کے حوالے کیا اور اُسے کہا کہ تم گھر جاؤ میری خواہش ہے کہ میں امام کے ساتھ قتل ہو جاؤں۔

نمبر 5: زبالہ

اس مقام پر امام کی مُلاقات دو آدمیوں سے ہُوئی جن کا تعلق عرب کے قبیلہ اسدی سے تھا انہوں نے امام کو کوفہ والوں کے ہاتھوں جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر دی۔
امام نے فرمایا "بیشک ہم اللہ کے لیے ہیں اور اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں اور بیشک وہ ہماری قُربانیوں کا حساب رکھنے والا ہے”۔
اس مُقام پر امام نے اپنے ساتھ چلنے والوں کو بتایا کے جناب مُسلم اور جناب ہانی کو شہید کر دیا گیا ہےاور کوفہ والے ہماری نُصرت نہیں کریں گے، امام نے اس مقام پر فرمایا جو چھوڑ کر جانا چاہتا ہے واپس چلا جائے۔

بہت سے قبائل جو راستے میں امام کے ساتھ اس اُمید پر چل پڑے تھے کہ اُنہیں مال و دولت ملے گی اس مقام پر ادھر اُدھر بکھر گئے اور واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور امام کے ساتھ اُن کے اہل خانہ سمیت تقریباً پچاس لوگ رہ گئے۔

نمبر 6: بطن العقیق

اس مُقام پر امام اکرمہ قبیلے کے ایک آدمی سے ملے جس نے امام کو آگاہ کیا کہ "کوفہ میں آپ کا کوئی دوست نہیں، کوفہ کو یزید کے لشکر نے گھیرے میں لے لیا ہے اور اُس کے داخلی اور خارجی دروازے بند کر دئیے ہیں اور کوفہ تشریف نہ لے جائیں” ۔ یہاں بھی امام نے اپنا سفر جاری رکھا۔

نمبر 7: Sorat

اس مُقام پر امام نے رات بسر کی اور صبح اپنے قافلے سے کہا کہ جتنا پانی ہوسکتا ہے ساتھ لے لیں۔

نمبر 8: شرف

اس مُقام پر امام کے ساتھیوں میں سے ایک چلایا کے اُس نے ایک لشکر کو اپنی طرف آتے دیکھا ہے، امام فوراً قافلے کا رُخ موڑ کر قریب ایک پہاڑ کے پیچھے لے گئے۔

نمبر 9: ذو حسم۔۔

اس مُقام پر امام کی مُلاقات حُر اور اُس کے ایک ہزار سپاہیوں ہُوئی جو پیاسے تھے، امام نے سب کو پانی پلانے کا حُکم دیا اور بذات خُود بھی سب کو پانی پلایا اور جانوروں کو بھی پانی پلایا گیا، اس مُقام پر ظہر کی نماز ادا کی گئی اور سب نے ملکر امام کی امامت میں نماز ظہر ادا کی۔

اس مُقام پر امام نے حُراور اُس کی فوج سےخطاب کیا اور فرمایا ، مفہوم” او اہل کوفہ تُم لوگوں نے میرے پاس اپنے قاصد بھیجے اور مُجھے خطوط لکھے کہ تُم لوگوں کے پاس کوئی امام نہیں اور میں کوفہ آؤں اور تم لوگوں کو اللہ کے راستے میں اکھٹا کرؤں اور تم لوگ میری بیعت کر سکو، تم لوگوں نے لکھا کے آپ اہل بیعت ہیں اور ہمارے معاملات کو اُن لوگوں کی نسبت جو ناانصافی کرتے ہیں اور غلط ہیں، بہتر طریقے سے حل کر سکتے ہیں، مگر اگر تُم لوگوں نے اپنا ارادہ بدل لیا ہے اور مُنکر ہوگئے ہو اور اہل بیعت کے حقوق نہیں جانتے اور اپنے وعدوں سے پھر گئے ہوتو میں واپس چلا جاتا ہُوں”۔
حُر کے لشکر نے امام کو واپس نہیں جانے دیا اور اُنہیں گھیر کر کوفہ کی بجائے کربلا کی طرف لے گئے۔

نمبر 10: بیضہ

امام اگلے دن بیضہ پہنچے اور اس مقام پر پھر حُر کے لشکر سے خطاب کیا آپ نے فرمایا، مفہوم "لوگو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص ایسے بادشاہ کو دیکھے جو ظالم ہو اللہ کے حرام قرار دئیے کو حلال کہے ، خُدائی عہدوپیمان کو توڑے ، سنت رسول کی مخالفت کرے اور اللہ کے بندوں پر گُناہ اور زیادتی کیساتھ حکومت کرتا ہو، تو وہ شخص اپنی زبان اپنے فعل اور اپنے ہاتھ سے اُس بادشاہ کو نہ بدلے تو اللہ کو حق پہنچتا ہے کے ایسے شخص کو اُس بادشاہ کی جگہ جہنم میں داخل کرے”۔
امام نے اس مُقام پر مزید فرمایا ، مفہوم” لوگو تمہیں معلوم نہیں کہ جن لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیارکی اور اللہ سے مُنہ پھیرا، مُلک میں فساد برپا کیا، حدود شرح کو معطل کیا اور مال غنیمت کو اپنے لیے مختص کر دیا، ایسی صورت میں مُجھ سے زیادہ کس پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اصلاح کی کوشش کرے، میرے پاس تمہارےقاصد آئے اور خطوط پہنچے کے تُم نے بیعت کرنی ہے اور تُم میرے مدد گار بنو گے اور مُجھے تنہا نہ چھوڑو گے، پس اگر تُم اپنا وعدہ پُورا کرو گے تو سیدھے راستے پر پہنچو گے”۔

امام نے یہاں لوگوں کو اپنے حسب اور نسب کا حوالہ دیا اور فرمایا، مفہوم "اگر تُم اپنے وعدے سے پھر جاؤ گے تو تعجب نہیں، تُم اس سے پہلے میرے والد اور میرے چچا زاد بھائی مُسلم کیساتھ ایسا ہی کر چُکے ہو اور عنقریب اللہ مُجھے تمہاری مدد سے بے نیاز کر دے گا”۔

امام کی تقریر سُن کر حُر نے امام سے کہا کہ اگر آپ نے جنگ کی تو آپکو قتل کر دیا جائے گا، امام نے فرمایا "تُم مُجھے موت سے ڈراتے ہو اور کیا تمہاری شقاوت اس حد تک پہنچے گی کہ مُجھے قتل کر دو گے”۔

حُر کے لشکر پر کوئی اثر نہ ہُوا اور وہ امام کو کربلا کی طرف گھیر کر لیجاتے رہے۔

نمبر 11: عزیب الحجنات۔

اس مُقام پر امام کی مُلاقات طرماح بن عدی سے ہُوئی جس نے امام کو کوفے والوں کے خطرناک ارادے سے آگاہ کیا، جسے امام پہلے ہی جانتے تھے اور امام سے اپنے ساتھ کوہ آجاہ چلنے کی درخواست کی تاکہ امام وہاں پناہ لے سکیں۔ امام نے فرمایا، مفہوم "اللہ تعالی تمہیں اور تمہاری قوم کو جزائے خیر دے، ہم میں اور ان لوگوں میں عہد ہو چُکا ہے اور اب ہم اس عہد سے پھر نہیں سکتے”۔

نمبر 12: قصر بنی مقاتل۔

فیصلہ ہوچُکا تھا کہ امام کو کوفہ نہیں جانے دیا جائے گا چنانچہ حُر کے لشکر نے کوفہ کا راستہ بدل کر امام کوگھیر کر کربلا کی طرف لیجانا شروع کیا اور امام راستے میں قصر بنی مقاتل رُکے اور شام کے وقت میں امام نے فرمایا ” بیشک ہم اللہ کے لیے ہیں اور اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں”۔

امام کے 18 سالہ بیٹے علی اکبر امام کے قریب آئے تو امام نے فرمایا کہ اُنہوں نے خواب میں کسی کو کہتے سُنا ہے کہ یہ لوگ اُنہیں قتل کرنے والے ہیں۔ جس پر جناب علی اکبر نے امام کو تسلی دی اور فرمایا، مفہوم ” کیاہم سیدھے راستے پر نہیں ہیں”۔

نمبر 13: نینوا

اس مُقام پر حُر کو ابن زیاد کا خط ملا جس میں اُس نے لکھا تھا کہ امام جہاں ہیں اُنہیں وہیں روک لواور اُنہیں ایسی جگہ اُترنے پر مجبور کردو جہاں پانی اور ہریالی نہ ہو۔
حُر نے امام کو ابن زیاد کے خط سے آگاہ کیا۔ آپ نے فرمایا ہم اپنی مرضی سے نینوا میں خیمہ زن ہوں گے۔ جس پر حُر نے کہا کہ ابن زیاد کے جاسوس ہر چیز کی نگرانی کر رہے ہیں لہذا میں آپ کو ایسا نہیں کرنے دے سکتا، پھر امام کا قافلہ ایک مقام پر پہنچا تو امام نے پُوچھا اس جگہ کا کیا نام ہے؟ کسی نے جواب دیا کربلا۔ امام نے فرمایا یہ کرب و بلا کی جگہ ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمیں قتل کیا جائے گا۔

نمبر 14: کربلا

امام کے حکم پر کربلا کے میدان میں خیمے گاڑ دئیے گئے ۔ دریائے فرات خیموں سے کُچھ میل کے فاصلے پر تھا اور یہ 2 محرم 61 ہجری کا دن تھا اور عیسوی کلینڈر پر 3 اکتوبر 680 کی تاریخ تھی۔

نوٹ:
اس آرٹیکل کا مقصد امام کے مکہ سے کربلا تک کے سفر میں آنے والی منازل اور چیدہ چیدہ واقعات کا ذکر کرنا تھا تاکہ جو لوگ نہیں جانتے اُنہیں 1731 کلومیٹر کے امام کے اس سفر کی تھوڑی آگاہی ہو ۔
حسین علیہ اسلام
آپ پہ لاکھوں سلام

Want your public figure to be the top-listed Public Figure in Multan?
Click here to claim your Sponsored Listing.

Videos (show all)

Beautiful poetry.... Ahmad Salman Great Poet
Courtesy! TikTok
Very true....
Amazingly beautiful poetry
How true is it ........ Amazing
LIFE CYCLE.....Reality of mundane life....
FEAR .......Run  OR  Rise .....It's matter of choice
Three Mistakes Of WorkplaceCourtesy! mr.remoo
.آج پھر درد و غم کے دھاگے میں ہم پرو کر ترے خیال کے پھول ترکِ الفت کے دشت سے چن کر آشنائی کے ماہ و سال کے پھولتیری دہلیز...
What a beautiful way of elaboration.....Courtesy!  Babar Gym

Category

Address


Multan

Other Writers in Multan (show all)
razi ud din razi razi ud din razi
73 A Jaleel Abad Colony
Multan, 60000

شاعر ، ادیب اور صحافی رضی الدین رضی ۔ ۔ چارشعری مجموعوں

LÂTÎF ÂHMÊD RÎÑDH LÂTÎF ÂHMÊD RÎÑDH
Multan, 446688

زندہ رہنے تک اِنسان کے ضمیر کواور مرنے کے بعد اِنسان کے کردار کو زندہ رہنا چاہیے

Toxic  Tweets Toxic Tweets
Multan

Follow me If You Likes my Posts ❤️ T O X I C T W E E T S

Ruqia beauty and makeup Ruqia beauty and makeup
Nasheman Coloney
Multan, 60700

In this page u will see the videos and images to support PTI , i followed Imran khan

Dr Muhammad saad shafi Dr Muhammad saad shafi
Multan

واعتصموا بحبل اللہ و لا تفرقو

M Sajid M Sajid
Multan

http://msajid9016.com

politics and current news politics and current news
Multan

this page is about the politics and current news of the Pakistan and also about every incident

Ďîåřy Wŕíțėš Ďîåřy Wŕíțėš
4
Multan

Diary Writes Diary is platform which offer best Thought's, introvert Quote's, Meaningful Post's and Life less وتعز من تشاء وتذل من تشاء Insan🖤...insanyat😇 🌸وما تشآءون الا ان یشاءا...

Urdu Quotes Urdu Quotes
Bsti Khudadad Ward Number 11
Multan, 60900

TART 1 TART 1
Multan, 34200

Islamic videos, 💞❤️‍🩹❤️ and Hadees share in this page, follow,like and share us.

Beauty tips Beauty tips
Multan

�I 'm skin care consultant � &brand partner �with oriflame sweden� cosmetics ��compnay�

سائیل سائیل
Multan, 6000

My own poetry