خدا اور میں
تاریخ اسلام پر لکھے گئے قصے اور واقعات پڑھنے کے لئے انگوٹھے کے نشان پے کلک کر کے پیج کو فالو کر لیں
پارہ نمبر 30 کے اہم مضامین
*تیسواں پارہ*
حصہ اول
تیسویں پارے کے اہم مضامین
*سورہ نباء*
مشرکین مکہ استہزاءو تمسخر کے طور پر مرنے کے بعد زندہ ہونے کو اور قرآن کریم کو ”النباالعظیم“ یعنی ”بڑی خبر“ کہتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعی بڑی اور عظیم الشان خبر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے منہ کی بات لیکر فرمایا کہ اس ”بڑی خبر“ پر تعجب یا انکار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تمہیں عنقریب اس کی حقیقت کا علم ہوجائے گا۔ پھر اس پر کائناتی شواہد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ آسمان و زمین اور ان میں موجود چیزیں جن کی تخلیق انسانی نقطہ نظر سے زیادہ مشکل اور عجیب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کی تخلیق فرمائی ہے اور ایسی طاقت و قدرت رکھنے والے اللہ کے لئے انسانوں کو دوبارہ پیداکرنا کون سا مشکل کام ہے۔ پھر اس اعتراض کا جواب دیا کہ اگر یہ برحق بات ہے تو آج مردے زندہ کیوں نہیں ہوتے؟ ہر چیز کے ظہور پذیر ہونے کے لئے وقت متعین ہوتا ہے۔ وہ چیز اپنے موسم اور وقت متعین میں آموجود ہوتی ہے۔ مرنے کے بعد زندہ ہونے کا ”موسم“ اور وقت متعین یوم الفصل (فیصلہ کا دن) ہے لہٰذا یہ کام بھی اس وقت ظاہرہوجائے گا۔ پھر جہنم کی عبرتناک سزاﺅں اور جنت کی دل آویز نعمتوں کے تذکرہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے جاہ و جلال اور فرشتوں جیسی مقرب شخصیات کی قطار اندر قطار حاضری اور بغیر اجازت کسی قسم کی بات کرنے سے گریز کو بیان کرکے بتایا کہ آخرت کے عذاب کی ہولناکی اور خوف کافروں کو یہ تمنا کرنے پر مجبور کردے گا کہ کاش ہم دوبارہ پیدا ہی نہ کئے جاتے اور جانوروں کی طرح پیوندِ خاک ہوکر عذاب آخرت سے نجات پاجاتے۔
*سورہ نازعات*
اس سورت کا مرکزی مضمون مرنے کے بعد زندہ ہونے کا اثبات ہے۔ ابتداءان فرشتوں سے کی گئی ہے جو اس کائنات کے معاملات کو منظم طریقے پر چلانے اور نیک و بد انسانوں کی روح قبض کرنے پر مامور ہیں۔ پھر مشرکین مکہ کے اعتراض کے جواب میں قیامت کی ہولناکی اور بغیر کسی مشکل کے اللہ کے صرف ایک حکم پر قبروں سے نکل کر باہر آجانے کا تذکرہ اور اس پر واقعاتی شواہد پیش کئے گئے ہیں جو اللہ فرعون جیسے ظالم و جابر کو حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے وسائل سے محروم شخص کے ہاتھوں شکست سے دوچار کرکے سمندر میں غرق کرسکتا ہے اور آسمانوں جیسی عظیم الشان مخلوق کو وجود میں لاسکتا ہے وہ انسان کو مرنے کے بعد زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ پھر جنت و جہنم کے تذکرہ اور صبح وشام کسی بھی وقت قیامت اچانک قائم ہوجانے کے اعلان پر سورت کا اختتام عمل میں لایاگیا ہے۔
: *سورہ عبس*
سرداران قریش کے مطالبہ پر حضور علیہ السلام ان سے علیحدگی میں دعوت اسلام کے موضوع پر گفتگو کررہے تھے کہ ان کے اسلام قبول کرلینے کی صورت میں ان کے ماتحت افراد بھی مشرف بہ اسلام ہوجائیں گے۔ اتنے میں ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوب کسی قرآنی آیت کے بارے میں معلومات کے لئے حاضر خدمت ہوئے وہ نابینا ہونے کی بنا پر صورتحال سے ناواقف تھے۔ حضور علیہ السلام کو ان کا یہ انداز ناگوار گزرا جس پر اللہ تعالیٰ نے سورت نازل فرمائی۔ ایک نابینا کے آنے پر منہ بسور کر رخ موڑلیا۔ جو استغناءکے ساتھ اپنی اصلاح کا خواہاں نہیں ہے اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور جو اللہ کی خشیت سے متاثر ہوکر اپنی اصلاح کی خاطر آپ کے پاس آتا ہے اس سے آپ اعراض کرتے ہیں۔ یہ قرآن کریم نصیحت کا پیغام ہے، کسی بڑے چھوٹے کی تفریق نہیں کرتا۔ اس سے جو بھی نصیحت حاصل کرنا چاہے اس کی جھولی علم و معرفت سے بھردیتا ہے۔ غریب علاقوں کو نظرانداز کرکے فائیو اسٹار ہوٹلوں اور پوش علاقوں کے ساتھ تفسیر قرآن کی مجالس کو مخصوص کرنے والوں کی واضح الفاظ میں اس سورت میں مذمت کی گئی ہے۔ انسان اگر پہلی مرتبہ اپنی تخلیق پر غور کرے تو دوبارہ پیدا ہونے پر اسے تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ ماخلقکم ولا بعثکم الا کنفس واحدة۔ تمہارا پیدا ہونا اور مرنے کے بعد زندہ ہونا ایک ہی جیسا ہے۔ زمین، فضاءاور پانی میں منتشر اجزاءکو پھلوں سبزیوں کی شکل دے کر تمہاری خوراک کے ذریعہ تمہارے جسم کا حصہ بنایا۔ مرنے کے بعد تمہارے منتشر اجزاءکو دوبارہ جمع کرکے انسان بناکر پھر قبروں سے باہر نکال لیا جائے گا۔ پھر قیامت کے دن کی شدت اور دہشت کو بیان کرکے نیک وبد کا ان کے اعمال کے مطابق انجام ذکر فرماکر سورت کو اختیام پذیر کیا ہے۔
*سورہ تکویر*
قیام قیامت اور حقانیت قرآن اس کے مرکزی مضامین ہیں۔ قیامت کے دن کی شدت اور ہولناکی اورہر چیز پر اثر انداز ہوگی۔ سورج بے نور ہوجائے گا۔ ستارے دھندلاجائیں گے، پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے، پسندیدہ جانوروں کو نظر انداز کردیا جائے گا، جنگی جانور جو علیحدہ علیحدہ رہنے کے عادی ہوتے ہیں یکجا جمع ہوجائیں گے۔ (پانی اپنے اجزائے ترکیبی چھوڑ کر ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تبدیل ہوکر) سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی۔ انسان کا سارا کچھ تباہ و برباد ہو کر رہ جائے گا
*سورہ انفطار*
اس سورت میں قیامت کے مناظر بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ سبحانہ و تعالٰی نے انسان کو اپنے رب کریم کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی ہے
*سورہ مطففین*
اس سورت ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی زجر و توبیخ کرکے انھیں آخرت کے عذاب یاد دلائے گے
اس کے بعد بدکاروں کے اخروی ٹھکانے *سجین* اور نیک لوگوں کے ٹھکانے *علیین* کا ذکر اور تعارف بیان ہوا
*سورہ انشقاق*
اس سورت میں بھی قیامت کے دہشت ناک مناظر اور پھر اس دن کامیاب اور ناکام ہونے والوں کے حالات بیان ہوئے
کامیاب لوگوں کو دائیں ہاتھ والے اور ناکام ہونے والوں کو بائیں ہاتھ والے کہہ کر ذکر کیا گیا
*سورہ البروج*
اس سورت أصحاب الحدود (خندق والے) اور اس دور کے مسلمانوں پر ان کے مظالم کا ذکر ہوا ہے
جہاں اصحاب الحدود کے لیے بربادی کی وعید سنائی گئی وہیں پر مظلوم مسلمانوں کی کامیابی کی نوید بھی سنائی گئی
اس کے بعد فرعون و ثمود کی اقوام کی تباہی کا ذکر کرکے عبرت دلائی گئی
*سورہ طارق*
رحم مادر میں دو پانی کے قطروں سے تخلیق انسانی کا ذکر کیا گیا
اس کے متصل بعد قیامت کے احوال اور کفار کے لیے چند روزہ مہلت کا بیان ہوا
*سورہ اعلی*
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھنے کا حکم ہوا
کامیاب لوگوں کی دو بڑی صفات *اللہ کا ذکر اور ادائیگی نماز*
بیان ہوئیں اس کے ساتھ ہی دنیا کی بے سباتی اور آخرت کی دوامیت کا ذکر کیا گیا
*سورہ غاشیہ*
پہلے جہنم کے عذاب پھر جنت کی نعمتیں بیان ہوئیں اور آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انداز تبلیغ سکھایا گیا
تیسواں پارہ (حصہ دوئم)
*سورہ الفجر
سابقہ اقوام عاد، ارم، اور فرعون کا بیان انکی بے مثال طاقت و قوت کا بیان اور ان کی تباہی کا ذکر کرکے درس عبرت
انسان کی تنگی رزق کا سبب یتیموں اور مسکینوں سے بے رغبتی بیان ہوا
*سورہ البلد
؛آنکھوں، زبان اور بولنے کے لیے دی گئی نعمت ہونٹوں کا ذکر
ہدایت اور گمراہی کےدو راستوں کی نشاندہی کی گئی
نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں حاصل کرنے والوں کی صفات کا بیان
*سورہ الشمس
گیارہ قسمیں کھا کر تزکیہ نفس کرنے والوں کو کامیابی کی ضمانت دی گئی ساتھ ہی بدکاروں کی ہلاکت و بربادی کا اعلان کیا گیا قوم ثمود اور ان کے پاس آنے والے اللہ سبحانہ و تعالٰی کی ایک نشانی اونٹنی اور اس کے ساتھ قوم کے ظالمانہ سلوک کا ذکر بھی اسی سورت میں ہوا
*سورہ اللیل
سخاوت کرنے والوں کے دنیا و آخرت کی آسانی و فراوانی کا وعدہ اور اس کے برعکس کنجوسوں کے لیے سختی اور تنگی کی وعید بیان ہوئ
*سورہ الضحی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی اور دلجوئی فرمائی گئی اور سائلین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا
*سورہ انشراح
ہر مشکل کے ساتھ آسانی کا وعدہ کیا گیا فارغ وقت اللہ کی عبادت میں گزارنے کا حکم دیا گیا
*سورہ التین
چار قسمیں کھا کر انسان کے حسن جمال کا ذکر ہوا
*سورہ علق
خون کے لوتھڑے سے انسانی تخلیق کا بیان دشمنان نبی کو سخت الفاظ میں ڈانٹ ڈپٹ ہوئی
*سورہ القدر
لیلۃ القدر کے فضائل و مناکب بیان ہوئے
*سورہ البینہ
مشرکین اور اہل کتاب کو اکٹھے مخاطب کرکے دونوں کو وعظ و نصیحت کی گئی آگے چل کر اہل ایمان کے انعامات کا ذکر کیا گیا
*سورہ الزلزال تا سورہ التکاثر
ان چاروں سورتوں میں قبر، قیامت اور جہنم کے مناظر اور واقعات بیان ہوے
*سورہ العصر
قرآن مجید کی نہایت مختصر اور انتہائی جامع سورت ے
کامیاب اور ناکام انسانوں کا بیان ہے اس میں
*سورہ الھمزہ
طعنے دینے اور مال جمع کرنے کی مزمت کی گئی
*سورہ الفیل
شاہ یمن ابرہہ کی بربادی کی داستان بیان ہوئی
*سورہ القریش
قریش کو بیت اللہ سے حاصل ہونے والے فوائد کا ذکر کرکے اللہ کی عبادت کا حکم ہوا
*سورہ الماعون
نمازوں میں غفلت اور ریاکاری کرنے والے نمازیوں کو بربادی کی وعید سنائی گئی
*سورہ کوثر
حوض کوثر جیسی خیر کثیر اپنے نبی کو عطا فرمانے کے اعلان کے ساتھ ہی دشمنان و گستاخان رسول کا نام و نشان تک مٹادینے کا اعلان ہے۔
سورہ کافرون
اسلامی نظام حیات کے علاوہ کسی دوسرے نظام کی طرف نگاہ نہ اٹھانے اور کفر سے بیزاری کا اظہار کرنے کی تلقین ہے۔
سورہ نصر
اسلامی ترقی کے بامِ عروج ”فتح مکہ“ کی پیشن گوئی اور لوگوں کے جوق در جوق اسلامی نظام کو اختیا رکرنے کے اعلان کے ساتھ تسبیح و تحمید واستغفار میں مشغول ہونے کی تلقین ہے۔
سورہ لہب
دشمنانِ خدا و رسول کے بدترین نمائندے ابو لہب جو آپ کا چچا بھی تھا اور قریش کا سردار بھی تھا اس کی اپنی بیوی سمیت عبرتناک موت کے اعلان کے ساتھ مخالفین اسلام کو تنبیہ ہے۔
سورہ اخلاص
عیسائیوں اور مشرکوں کے باطل عقیدہ کی تردید کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ اور خالص توحید کے بیان پر مشتمل ہے۔ حضور علیہ السلام نے اس سورت کو ”تہائی“ قرآن کے برابر قرار دیا ہے۔
سورہ فلق
تمام مخلوقات اور شرارت کے عادی حاسدین کے شر سے اللہ کی پناہ حاصل کرنے کی تلقین ہے۔
سورہ ناس
توحید کی ”اقسام ثلاثہ“ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن و انس کے قبیل سے تعلق رکھنے والے ہر وسوسہ پیدا کرنے والے سے اللہ کی پناہ میں آنے کی ترغیب ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ سونے سے پہلے اخلاص، فلق اور ناس تینوں سورتیں پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں پر دم کرکے پورے جسم پر پھیر لیا کرتے تھے اور یہ عمل تین مرتبہ دہرایا کرتے تھے۔
*********ختم شُد**********
خلاصہ قرآن پارہ نمبر 30
تیسویں پارے کا آغاز سورۃ نباء سے ہوتا ہے جس میں اللہ تعالی نے قیامت کی گھڑیوں کا ذکر کیا ہے کہ قیامت کی آمد ایک بہت بڑی خبر ہوگی اس کی آمد سے قبل بہت سے لوگوں کو اس کے ہونے کے بارے میں شبہات تھے۔ اس سورت میں اللہ پاک نے جہنمیوں کی سزا کا ذکر کیا کہ وہ کس طرح صد ہا ہزار سال جہنم میں پڑے رہیں گے۔ تقویٰ والوں کے لیے اس دن بڑی کامیابی ہوگی اور ان کو باغ اور انگور، اٹھتی جوانیوں والی ہم سِنیں اور چھلکتے جام دیے جائیں گے اور اس دن وہ کوئی بیہودہ بات اور بہتان نہ سنیں گے۔ اس دن وہی بول سکے گا جسے رحمٰن اجازت دے گا۔ اس دن منکرِ حق پکار اٹھے گا کہ اے کاش میں نابود ہوتا یعنی مٹی ہوتا۔
اس کے بعد سورۃ نازعات ہے۔ اس میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اس نے اپنے آپ کو نفسانی خواہشات سے بچا لیا تو اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔ قیامت کا دن آ کر رہے گا چنانچہ اس کی تیاری کرنی چاہیے۔ نیز حضرت موسیٰ اور فرعون والے واقعے کا ذکر کرکے مخاطبینِ محمد کو خبر دار کیا گیا ہے کہ اگر وہ دعوت کو جھٹلائیں گے تو انھیں آخرت کے عذاب کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی سزا دی جائے گی۔
اس کے بعد سورۃ عبس ہے جس میں اللہ پاک نے نبی کریم کو دعوتِ دین کے کام میں کم رُو کم حیثیت لوگوں سے بھی برابر کا معاملہ کرنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ نیز قیامت کی گھڑیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو بھائی اپنے بھائی سے، بیٹا اپنے والدین سے اور بیوی اپنے شوہر سے بھاگے گی اور والدین اپنے بیٹے سے بھاگیں گے۔ ہر کسی کی خواہش ہوگی کہ وہ آگ سے کسی بھی طور بچ جائے چاہے اس کے بدلے کسی بھی دوسرے کو پکڑ لیا جائے۔
اس کے بعد سورۃ تکویر ہے۔ اس میں اللہ پاک نے قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ اس دن زندہ گاڑ ڈالی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ اس نے کیا گناہ کیا تھا کہ اسے مارا گیا۔ اس دن ہر شخص جان لے گا کہ کہ وہ کیا لے کر آیا ہے اور پیچھے کیا چھوڑ کر آیا ہے۔ نیز ارشاد ہے کہ قرآنِ مجید کسی شیطان کا الہام نہیں ہے بلکہ دو جہانوں کے رب کا کلام ہے اور ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو صراطِ مستقیم پر چلنا چاہتے ہیں۔ نیز ارشاد ہے کہ تم لوگ فقط وہی کچھ چاہ سکتے ہو جو اللہ رب العالمین چاہیں۔
اس کے بعد سورۃ انفطار ہے جس میں اللہ پاک نے انسان سے پوچھا ہے کہ تجھے تیرے کریم رب کی طرف سے کس نے دھوکے میں ڈال دیا ہے؟ پھر قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کرتے ہوئے دنیا میں انسانوں کا حساب کتاب کا روزنامچہ لکھنے والے فرشتوں کا ذکر کیا گیا ہے جنھیں کرامًا کاتبین کہا جاتا ہے۔ یہ دو فرشتے ہیں جو انسانوں کی روزانہ کارگزاری لکھتے ہیں اور یہی اعمال نامہ قیامت کے دن انسانوں کو پیش کیا جائے گا۔ قیامت کا دن بدلے کا دن ہے اور اس دن کوئی کسی کے لیے کچھ نہ کر سکے گا۔
اس کے بعد سورۃ مطففین ہے جس میں ناپ تول میں ڈنڈی مارنے والوں کی مذمت کی گئی ہے اور قیامت کے واقع ہونے اور اجتماعی اخلاقیات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ ارشاد ہے کہ تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے جو اپنے لیے ترازو کی پوری تول لیتے ہیں لیکن دوسروں کے لیے تول میں ڈنڈی مارتے ہیں۔ پروردگار کے حضور پیشی ہونے پر انھیں بربادی کا سامنا ہوگا۔ فرمانبرداروں اور نافرمانوں کا نامہ اعمال ایک سا نہیں ہوگا۔ ارشاد ہوا کہ ہماری آیتیں گزرے زمانے کے لوگوں کے افسانے نہیں ہیں۔ فرمانبرداروں کا نامہ اعمال علیین ہوگا اور ان کے چہروں پر عیش کی تازگی ہوگی اور ان کو نفیس ترین سربند (Sealed) شراب پلائی جائے گی جس پر مشک کی مہر ہوگی اور اس میں تسنیم کی آمیزش ہوگی۔ اس دن وہ لوگ جو مجرم ہوئے اور ایمان والوں پر ہنستے تھے، آج ان پر ایمان والے ہنسیں گے اور ان کا انجام دیکھیں گے اور ان کے کرتوتوں کا بدلہ۔ (یاد رہے کہ کسی جگہ نوکری کرتے ہوئے پوری محنت نہ کرنا بھی ڈنڈی مارنا ہے، ملازم کا استحصال کرنا بھی ڈنڈی مارنا ہے، حکومتی ٹیکس چوری کرنا بھی ڈنڈی مارنا ہے، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہ رکھنا جیسے ساس بہو، میاں بیوی بچوں وغیرہ کا ایک دوسرے کے حقوق و فرائض پورے نہ کرنا وغیرہ بھی ڈنڈی مارنا ہے، اختیارات کا ناجائز استعمال بھی ڈنڈی مارنا ہے، ڈاکٹر یا مکینک کا جان بوجھ کر آپریشن میں یا گاڑی میں خرابی چھوڑ دینا یا ڈال دینا بھی ڈنڈی مارنا ہے، بجلی یا گیس کا کنڈا ڈالنا بھی ڈنڈی مارنا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔)
اس کے بعد سورۃ انشقاق ہے جس میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے کہ انسان محنت و مشقت کا خوگر ہے اور اس کو چاہیے کہ اپنے پروردگار کے لیے محنت کرے جس سے اس نے ملاقات کرنی ہے۔ اگر انسان اپنے پروردگار کے لیے محنت کرے گا تو اس کو آسان حساب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نیز قیامت کے دلائل دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ منکرینِ حق کو کیا ہوگیا ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ سجدہ ریز نہیں ہوتے۔ ان کو درد ناک عذاب کی خوش خبری سنا دیجیے۔
اس کے بعد سورۃ بروج ہے جس میں اللہ پاک نے اہلِ ایمان پر ظلم و ستم کرنے والوں اور دعوت کے مقابلے میں چالیں چلنے والوں کو برے انجام کی خبر دیتے ہوئے اصحابِ اخدود کی بستی کا ذکر کیا ہے جنھیں ایمان لانے کی پاداش میں انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ اہلِ ایمان نے فرعون و ثمود وغیرہ کے لشکروں کی اس سزا کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا لیکن دعوتِ توحید سے دستبردار ہونا گوارا نہیں کیا۔ نیز ارشاد ہوا کہ قرآنِ مجید بلند پایہ ہے اور لوحِ محفوظ میں ہے۔
اس کے بعد سورۃ طارق ہے۔ اس میں اللہ پاک نے بتایا ہے کہ رات کو نمودار ہونے والے تارے گواہی دیتے ہیں کہ ہر جان پر ایک نگہبان مقرر ہے، اور فرمایا ہے کہ کس طرح انسان کو پانی کے معمولی قطرے سے تخلیق کیا گیا۔ جو خدا انسان کو پانی کے معمولی قطرے سے پیدا کر سکتا ہے وہ انسان کو موت کے بعد بآسانی زندہ بھی کر سکتا ہے اس لیے انسان کو اپنی حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ قرآن ایک دوٹوک بات ہے اور کوئی ہنسی مذاق نہیں۔ اور (اے نبی، آپ کے مقابلے میں) یہ لوگ ایک چال چل رہے ہیں، اور میں بھی ایک چال چل رہا ہوں۔ اس لیے ان منکرینِ حق کو ذرا دیر کے لیے چھوڑ دیجیے۔
اس کے بعد سورۃ الاعلیٰ ہے جس میں اللہ پاک نے بیان فرمایا ہے کہ لوگوں کی نگاہ دنیا کی زندگی پر ہوتی ہے لیکن حقیقی اور باقی رہنے والی زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ کامیاب وہ ہے جس نے پاکیزگی اختیار کی، رب کا ذکر کیا اور نماز پڑھی۔ یہی بات پچھلے یعنی حضرت ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں بھی اتری ہے۔
اس کے بعد سورۃ فجر ہے جس میں اللہ پاک نے سابق نافرمان اقوام عاد، ثمود اور فرعون کا ذکر کرتے ہوئے ان کے انجام سے ڈرایا ہے اور انسانی معاشرے کی اخلاقی حالت کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ لوگ یتیم کی عزت نہیں کرتے اور مسکین کو کھانا کھلانے کے لیے ایک دوسرے کو نہیں ابھارتے اور میراث کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں۔ قیامت قائم ہونے کے بعد یہ لوگ کہیں گے کاش ہم نے اس زندگی کے لیے کچھ کیا ہوتا۔ جب قیامت کا دن آئے گا تو اللہ مومن کو مخاطب ہوکر کہیں گے کہ اے نفسِ مطمئنہ، اپنے پروردگار کی طرف راضی ہوکر پلٹ جا اور میرے بندوں اور میری جنت میں داخل ہوجا۔
اس کے بعد سورۃ البلد ہے جس میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ نہیں، میں اس شہر یعنی مکہ کی گواہی دیتا ہوں اور (اے نبی) آپ اس شہر میں رہتے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تم سب کے باپ ابراہیم اور اس کی اولاد کو کہ جب انسان پیدا ہوا تو سخت مشکل میں تھا۔ پھر اللہ پاک نے انسان پر اپنے انعامات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ نے اس کو دو آنکھیں، زبان اور دو ہونٹ عطا فرمائے اور اس کی رہنمائی دو راستوں (ہدایت اور گمراہی) کی طرف کی ہے۔ اس کی مرضی ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتا ہے۔ جو صحیح راستے پر چلے گا جنت میں جائے گا اور جو غلط راستہ اختیار کرے گا وہ جہنمی ہوگا۔
اس کے بعد سورۃ شمس ہے جس میں ارشاد ہے کہ اللہ نے نفس کو تخلیق کیا اور اس میں نیکی اور برائی کو الہام کر دیا، تو جو اپنے نفس کو آلودہ کرے گا وہ تباہ ہوجائے گا اور فلاح اسے ملے گی جو اپنے نفس کو پاک کرے گا۔ نیز قومِ ثمود کا ذکر ہے کہ انھوں نے اونٹنی کی پنڈلیاں کاٹ دیں جس کی سزا میں اللہ نے ان پر ایسی آفت توڑی کہ سب کو برابر کر دیا۔
اس کے بعد سورۃ الیل ہے جس میں اللہ نے فرمایا ہے کہ جس نے صدقہ دیا اور نیکی کی تائید کی اس کے لیے جنت کی راہ آسان کی جائے گی اور جس نے بخل کیا اور اچھی بات کو جھٹلایا اس کے لیے مشکل راستے یعنی جہنم کے راستے کو ہموار کر دیا جائے گا۔
اس کے بعد سورۃ الضحیٰ ہے جس میں اللہ پاک نے نبی کریم کو تسلی اور آئندہ ایک بڑی کامیابی کی بشارت دی ہے۔ نیز اس امر کی تلقین کی گئی ہے کہ پروردگار کی نعمتوں کا اعتراف کرنا چاہیے اور ان کا اظہار بھی کرنا چاہیے، یعنی تحدیثِ نعمت اللہ کا حکم ہے۔
اس کے بعد سورۃ الم نشرح ہے جس میں نبی کریم کو تسلی دی گئی کہ ہم نے آپ کا سینہ کھول دیا ہے اور آپ کا بوجھ ہلکا کر دیا ہے اور آپ کے تذکروں کو بلند کر دیا ہے۔ اور بے شک ہر تنگی کے بعد آسانی ہے۔
اس کے بعد سورۃ التین ہے جس میں تین اور زیتون کے پہاڑوں والے ملکوں یعنی فلسطین اور شام اور طورِ سینین کی قسم کھا کر فرمایا گیا ہے کہ مکہ امن والا شہر ہے اور انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا گیا ہے۔ پھر وہ خود ہی پستی میں چلا گیا۔ مگر جو لوگ ایمان لائے اور اعمالِ صالح کیے ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔
اس کے بعر سورۃ علق ہے جو اللہ کی طرف سے اترنے والی پہلی وحی ہے۔ ارشاد ہے کہ ہم نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے اور حضرت محمد علیہ السلام کو اللہ نے اپنے نام سے پڑھنے کا حکم دیا ہے اور ارشاد فرمایا کہ ہم نے انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا جو کہ وہ نہیں جانتا تھا۔ نیز نماز و عبادت سے روکنے والوں کے برے انجام کی خبر دی گئی ہے اور سجدوں کے ذریعے اللہ سے قریب ہونے کو ارشاد فرمایا گیا ہے۔
اس کے بعد سورۃ قدر ہے جس میں ارشاد ہے کہ ہم نے اس قرآن کو تقدیر کے فیصلوں والی رات یعنی ایسی رات میں نازل کیا جس میں بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں اور قدر والی رات ہزار مہینوں سے زیادہ فضیلت کی حامل ہے۔ اس رات میں فرشتے اور روح الامین احکامات لے کر اترتے ہیں اور یہ رات طلوعِ فجر تک سلامتی ہے۔
اس کے بعد سورۃ بینہ ہے جس میں قریش اور اہلِ کتاب کے بعض لوگوں یعنی مشرکینِ بنی اسرائیل کے اس لغو مطالبے کا ذکر ہے کہ آسمان سے کوئی فرشتہ کتاب پڑھتا ہوا اترے۔ نیز دین کی دعوت کو پرکھنے کا اصل راستہ ذکر کیا گیا ہے۔ پچھلی کتابوں میں بھی اللہ کی عبادت، نماز اور زکوٰۃ کی تعلیم دی گئی تھی کہ یہی سیدھی ملت یعنی ملتِ ابراہیم کا دین ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلام کوئی نئے احکامات یا نظامِ عبادات لے کر نہیں آیا بلکہ یہ احکامات پہلے سے چلے آ رہے ہیں اور اسلام نے ان میں کہیں کہیں کوئی درستیاں یا تبدیلیاں تجویز کی ہیں۔
آگے فرمایا کہ منکرینِ حق یقینًا دوزخ میں جا پڑیں گے اور یہ بدترین مخلوق ہیں جب کہ ایمان اور اعمالِ صالح والے لوگ یقینًا مخلوقات میں بہترین لوگ ہیں اور اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔
اس کے بعد سورۃ زلزال ہے جس میں انسان کو تنبیہہ کی گئی ہے کہ وہ روزِ حشر سے غافل نہ رہے جب زمین بری طرح ہلائی جائے گی اور وہ اپنے سارے بوجھ نکال باہر کرے گی۔ اس دن لوگوں کو ان کے اعمال دکھائے جائیں گے۔ جس نے ذرہ بھر بھلائی کی ہے وہ بھی دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہے وہ بھی دیکھ لے گا۔
اس کے بعد سورۃ عادیات ہے جس میں انسانوں کو ان کے برے رویوں کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے کہ ہانپتے دوڑتے گھوڑے جو لوٹ مار کے لیے استعمال ہوتے ہیں یہ گواہی دیتے ہیں کہ انسان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے اور مال کی محبت میں مبتلا ہے۔ قیامت کے دن انسانوں کے دلوں کے ارادے، نیتیں اور باطنی محرکات سب کھل کر سامنے آ جائیں گے۔
اس کے بعد سورۃ قارعہ ہے جس میں آخرت کا مضمون ہے۔ ارشاد ہے اس دن لوگ پتنگوں کی طرح اڑیں گے اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کے مانند ہو جائیں گے۔ اس دن جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہ عیش میں ہوں گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے ان کا ٹھکانہ دہکتی ہوئی آگ کی گہری کھائی ہے۔
اس کے بعد سورۃ تکاثر ہے جس میں دنیا کے مال اسباب کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا بیان ہے کہ آدمی قبر تک اسی میں لگا رہتا ہے لیکن ان سب نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
اس کے بعد سورۃ عصر ہے جس میں اللہ پاک نے زمانے کی قسم اٹھا کر کہا ہے کہ ہر انسان ناکام ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور اعمالِ صالح اختیار کیے اور حق بات اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
اس کے بعد سورۃ ہُمزہ ہے جس میں انسان کی کچھ اہم خرابیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو جہنم تک لے جاتی ہیں۔ ان میں اشارہ بازی، عیب لگانا، مال جمع کرنا اور گن گن کر رکھنا شامل ہیں۔
اس کے بعد آخری دس سورتیں ہیں جن میں پہلی سورۃ فیل ہے جس میں یمن کے عیسائی بادشاہ کے ہاتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ پر دھاوے کا بیان ہے اور جس لشکر کو پرندوں کے منہوں سے پکی مٹی کی کنکریوں کے ذریعے بھس بناکر رکھ دیا گیا تھا۔ یہ سال عام الفیل کہلایا۔ اگلی سورۃ قریش ہے جس میں قریش کو تلقین ہے کہ جس گھر یعنی کعبہ کی تولیت انھیں حاصل ہے اس گھر کے مالک نے انھیں رزق اور امن سے نوازا ہے۔ اگلی سورۃ ماعون ہے جس میں قریش کے سربراہوں میں پائی جانے والی چھہ معاشرتی خرابیوں کا ذکر ہے: روزِ جزا کو جھٹلانا، یتیم کو دھکے دینا، مسکین کو کھانا کھلانے کے لیے نہ ابھارنا، نمازوں کی حقیقت سے غافل ہونا، دکھاوے کی عبادت کرنا، روزمرہ استعمال کی ادنیٰ چیز کسی کو نہ دینا۔ اگلی سورۃ الکوثر ہے جس میں رسول اللہﷺ کو قیامت کے دن حوضِ کوثر کی بشارت دی گئی ہے (کچھ مفسرین نے کوثر سے مراد خانہ کعبہ مراد لیا ہے یعنی مکہ فتح ہونے کی عظیم خوش خبری) اور کہا گیا ہے کہ اپنے رب کی نماز پڑھو اور اسی کی قربانی دو، اور ساتھ ہی یہ بھی تسلی دی گئی ہے کہ آپ کا دشمن جڑ کٹا ہے یعنی وہ بے نام و نشان رہے گا۔ اگلی سورۃ کافرون ہے جس میں نبی پاک سے اعلان کرایا گیا ہے کہ اے کافرو، میں ان چیزوں کی عبادت نہ کروں گا جن کی عبادت تم کرتے ہو اور نہ کبھی تم اس (اللہ) کی عبادت کرو گے جس کی میں عبادت میں کرتا ہوں۔ تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔ اگلی سورۃ نصر ہے جس میں غلبہ حق کی بشارت ہے اور نبی کریم کو اللہ کی تسبیح بیان کرنے اور استغفار کا حکم ہے اور اپنے رب سے ملاقات کی تیاری کا اشارہ ہے۔ اگلی سورۃ لہب ہے جس میں اتمامِ حجت کے بعد ابولہب کی تکفیر اور اس کی بیوی (اور ہوا خواہوں) پر شدید عذاب کے نزول کا ذکر ہے۔ اس کے بعد سورۃ اخلاص ہے جس میں توحیدِ خالص کا فیصلہ کن بیان ہے کہ اللە اکیلا اور بے نیاز ہے، نہ وہ کسی کا باپ ہے نہ بیٹا، اور نہ کوئی اس کا ہم مرتبہ ہے. اگلی سورۃ فلق ہے جس میں ہر چیز کے نمودار کرنے والے رب سے پناہ طلب کی گئی ہے کہ وہ مخلوقات، چھا جانے والے اندھیرے، گرہوں پر پھونک مارنے والیوں، اور حاسدوں کے حسد کے شر سے بچائے. آخری سورۃ الناس ہے جس میں جنوں اور انسانوں میں سے وسوسہ ڈالنے والے خناسوں کے شر سے اللہ کی پناہ چاہی گئی ہے.
اللہ پاک ہمیں قرآنِ مجید میں بیان کردہ مضامین سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
دعا میں یاد رکھیئے گا ۔ #خدااورمیں #خدااورمیں #خدااورمیں #خدااورمیں
پارہ نمبر 29 کے اہم مضامین
انتیسواں پارہ
سورہ ملک
1- توحيد کا بیان
2- جہنم میں داخل ہونے والوں اور داروغہ جہنم کے درمیان مکالمہ
سورہ قلم
1- باغ والوں کا واقعہ کہ جن کا باغ غرباء ومساکین کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنے کے نتیجے میں باغ آگ کی نذر ہوگیا
2- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق عالی کا بیان ہے
سورہ الحاقة
1- مختلف قوموں کے عذاب میں گرفتار کئے جانے کا بیان
2- قیامت کے وقوع کا بیان اور اچھے لوگوں کے جنت میں داخل ہونے اور بروں کے جہنم میں جانے کا بیان اور اسباب کا تذکرہ
سورہ المعارج
1- قیامت کے وقوع کا انداز
2- انسانوں کے بعض صفات کا بیان
3- جنتیوں کے صفات کا بیان
سورہ نوح
1- نوح عليه السلام کے طویل تبلیغ اور ان کے طریقہ دعوت کا بیان
2- استغفار کے فوائد کہ بارش نازل ہوگی مال میں اضافہ ہوگا نرینہ اولاد ملے گی باغات اور نہریں حاصل ہونگی
3- ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر بتوں کا بیان کہ نوح علیہ السلام کی قوم نے کہا کہ ہم انہیں نہیں چهوڑ سکتے
سورہ الجن
1- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم وادی نخلہ میں گئے نماز میں قرآن مجید کی تلاوت کررہے تھے جنوں کی ایک جماعت کا گزر ہوا تو انہوں نے قرآن مجید سنا اور ایمان لے آئے
2- مسجدیں صرف اور صرف اللہ کی عبادت کے لئے ہیں ان میں کسی اور کو نہیں پکارا جائے گا
سورہ المزمل
1- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی عبادت کا حال بیان کیا گیا ہے کہ آپ پوری رات عبادت کرتے تھے چنانچہ آپ پابندی لگائی گئی کہ پوری رات عبادت نہ کریں
2- قرآن مجید میں سے جو آسان ہو اسے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے نماز قائم کرنے زکات ادا کرنے اور قرض حسنہ دینے کا حکم ہے
سورہ مدثر
1- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا گیا کہ آپ تبلیغ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے رب کی کبریائی بیان کریں
2- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی سے انکار کرنے والے جہنم کا ایندھن بنیں گے اور پھر جہنم کی بعض صفات کا بیان ہے
3- جنتیوں اور جہنمیوں کا مکالمہ اور جہنم میں داخل ہونے کے اسباب کا بیان کہ ہم نمازی نہیں تھے مسکینوں کو کھانا نہیں کہلاتے تھے ہم گپ ہانکا کرتے تھے اور قیامت کو جھٹلاتے تھے
سورہ القیامۃ
1- جب قیامت قائم ہوگی انسان حیران ہو گا اور کہے گا این المفر کہاں بھاگ کر جاؤں لیکن وہاں نہ کوئی بهاگ سکتا ہے اور نہ تو رب کی پکڑ سے بچ سکتا ہے
2 - جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ جلدی جلدی پڑهتے کہ کہیں بهول نہ جاؤں اللہ نے فرمایا : اے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم آپ جلدی نہ کریں بلکہ غور سے سنیں ، پڑهانا ہماری ذمہ داری ہے
3- قیامت کے دن بہت سے چہرے تروتازہ ہونگے اور اپنے رب کو دیکھ رہے ہونگے اور بہت سے چہرے پژمردہ ہونگے
سورہ دهر
1- انسانوں پر ایک ایسا بھی دور آیا ہے کہ جب وہ کچھ بھی نہ تھا پھر اللہ عدم سے وجود بخشا
2- جنتیوں اور جہنمیوں کا بیان ہے
3- نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو آنے والی اذیتوں پر صبر کی تلقین کی گئی ہے ا صبح و شام رب کے ذکر وفکر میں مشغول رہنے کا حکم دیا گیا ہے
سورہ مرسلات
1- قیامت کا بیان اور اس کے وقوع کے وقت آسمان پہاڑ اور ستاروں کی کیا حالت ہوگی اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے
2- قیامت کے وقوع، مجرموں کو دبوچ لئے جانے، انسان کی پیدائش، زمین کا بنایا جانا اس میں مضبوط پہاڑوں کا رکھنا اور پھر جہنم کے شعلوں کا بیان کافروں اور مشرکوں کا قیامت کے دن نا بولنا اور ان کے علاوہ اور بہت سی چیزوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بار بار یہ کہا گیا کہ ان واضح چیزوں کے جھٹلانے والوں کے لئے تباہی ہے اور یہ بات تقریباً دس مرتبہ دہرائی گئی ہے اور آخر میں کہا گیا کہ اگر تم ان باتوں پر ایمان نہیں رکھتے تو پھر کس بات پر ایمان لاؤ گے؟
خلاصہ قرآن پارہ نمبر 29
انتیسویں پارے کا آغاز سورۃ ملک سے ہوتا ہے جس میں اللہ پاک نے اپنی ذات کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ارشاد ہے کہ زندگی اور موت کو اس لیے بنایا گیا تاکہ زبردست بخشنے والا خدا یہ جان لے کہ کون اچھے عمل کرتا ہے۔ اپنی قوت تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ نے تلے اوپر سات آسمان بنائے اور اس کاریگری سے بنائے کہ ان کی تخلیق میں کوئی نقص نظر نہیں آتا، اور اے دیکھنے والے تو بار بار اپنی نگاہ کو دوڑا کر دیکھ تب بھی ہر بار تیری نگاہ نقص ڈھونڈنے میں ناکام ہوکر تھک جائے گی۔ ہم نے آسمانِ دنیا کو چراغوں سے مزین کیا اور ان کو شیطانوں کو رجم کرنے کا آلہ بنایا۔ جب جہنمی جہنم میں ڈالے جائیں گے تو ان کا چیخنا چلانا سن کر دروغے پوچھیں گے کہ کیا تمھارے پاس کوئی ہدایت کرنے والا نہیں آیا تھا؟ وہ کہیں گے کیوں نہیں، مگر ہم نے اسے جھٹلا دیا تھا۔ اگر ہم سنتے اور سمجھتے تو دوزخیوں میں سے نہ ہوتے۔ جو لوگ بن دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے لیے بخشش اور اجرِ عظیم ہے۔ تم بات کو پوشیدہ کہو یا ظاہر، اللہ دل کے بھیدوں سے واقف ہے۔ بھلا جس نے پیدا کیا وہ بے خبر ہے؟
ارشاد ہوتا ہے کہ وہی خدا ہے جس نے زمین کو نرم کیا تاکہ تم اس میں چلو پھرو اور اس کا دیا رزق کھاؤ اور قیامت کے دن تمھیں اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ جو پرندے تمھارے سروں پر اڑتے پھرتے ہیں انھیں اللہ کے سوا کسی نے تھام نہیں رکھا ہوتا۔ بھلا ایسا کون ہے جو تمھاری فوج ہوکر اللہ کے سوا تمھاری مدد کر سکے، یعنی فوج جمع کر لینے کے بعد بھی فتح یا شکست خدا کے ہاتھ ہوتی ہے۔ بھلا اگر وہ اپنا رزق بند کرلے تو کون ہے کہ تمھیں رزق دے؟ بھلا جو شخص چلتا ہوا منہ کے بل گر پڑتا ہے وہ سیدھے راستے پر ہے یا وہ جو سیدھے راستے پر برابر چل رہا ہے؟
آخرِ سورت میں قیامت کے لیے جلدی مچانے والوں اور عذاب کی وعید کے پورا ہونے کے لیے طعنے دینے والے کافروں کے بارے میں ارشاد ہے کہ ان کی خواہش جلد پوری ہو جائے گی اور اس دن ان کے چہرے لٹک کر برے ہو جائیں گے۔ کہہ دیجیے کہ ہم اسی اللہ پر ایمان لائے اور اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں اور تمھیں جلد معلوم ہو جائے گا کہ کھلی گمراہی میں کون پڑا ہوا تھا۔ اگر پانی خشک ہو جائے تو اللہ کے سوا کون ہے جو تمھارے لیے پانی کا چشمہ بہا لائے؟
سورۃ ملک کے بعد سورۃ القلم ہے۔ اس میں ارشاد ہوتا ہے کہ رسول اللہ مجنون نہیں ہیں اور انھیں اخلاقِ عظیم عطا فرمایا گیا ہے، اور عنقریب تم دیکھ لو گے کہ تم میں سے دیوانہ کون ہے۔ تم جھٹلانے والوں کا کہا مت ماننا، اور ایسے شخص کے کہے میں مت آنا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہو۔
اس سورت میں ایک سخی اور نیک زمیندار کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اپنے باغات کی آمدنی میں سے خدا کے حق کو احسن طریقے سے ادا کیا کرتا تھا۔ جب اس کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹوں نے فیصلہ کیا کہ وہ فصلوں کی کٹائی میں سے کسی غریب کو کچھ بھی ادا نہ کریں گے۔ جب فصل کی کٹائی کا وقت آیا تو وہ صبح سویرے نکلے تاکہ راستے میں ان کو کوئی مسکین نہ مل جائے۔ جب وہ باغ میں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں پر کھیت یا باغ نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ ان کو شک ہوا کہ وہ راستہ بھول گئے ہیں لیکن اچھی طرح غور کرنے کے بعد وہ سمجھ گئے کہ وہ راستہ نہیں بھولے بلکہ ان کا باغ اجڑ چکا ہے۔ اس واقعہ سے یہ سمجھایا گیا کہ جب مال کو راہِ خدا میں خرچ نہ کیا جائے تو اس مال کے ضائع ہونے کے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں۔
آخرِ سورت میں ارشاد ہے کہ کافر رسول اللہ کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے جب وہ قرآن کو سنتے تو آپ کو مجنون کہتے۔ اللہ نے فرمایا کہ وہ آپ کو اپنی نگاہوں سے گرانا چاہتے ہیں اس لیے آپ کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآنِ مجید جہانوں کے لیے نصیحت ہے۔
سورۃ القلم کے بعد سورۃ الحاقہ ہے۔ اللہ نے اس سورت میں قیامت کو حقیقت کے نام سے پکارا اور اس حقیقی کھڑکھڑاہٹ کو جھٹلانے والوں کے انجام سے آگاہ کیا ہے۔ اس سورت میں قومِ ثمود اور عاد کے انجام سے آگاہ کیا گیا ہے جنھوں نے قیامت کو جھٹلایا تھا۔ قومِ ثمود کو ایک چیخ کے ذریعے اور قومِ عاد کو تیز ہوا کے ذریعے ہلاک کیا گیا۔ قیامت کے دن جن لوگوں کو اعمال نامے دائیں ہاتھ میں ملیں گے وہ کامیاب سب کو دکھاتے پھریں گے اور میووں والے باغوں اور محلات میں ہوں گے۔ اور جن لوگوں کو اعمال نامے بائیں ہاتھ میں ملیں گے وہ موت مانگتے ہوں گے (جو نہیں ملے گی) اور ان کو آگ میں ستر گز کی زنجیر میں ڈالا جائے گا۔ وہاں ان کا کوئی ہمدرد نہیں ہوگا اور پیپ کے سوا کوئی خوراک نہ ملے گی۔
اس کے بعد نبی کریم کے بارے میں کافروں کے اقوال کو نقل کرکے ان کی تردید کی گئی ہے۔ کافر آپ کو شاعر اور کاہن کہتے تھے جب کہ اللہ فرماتے ہیں جو کچھ بھی آپ پر اترا ہے پروردگارِ عالم نے اتارا ہے اور اس میں جھوٹ والی کوئی بات نہیں۔ یہ پرہیزگاروں کے لیے نصیحت ہے اور کافروں کے لیے موجبِ حسرت ہے اور یہ قابلِ یقین حق ہے۔ اللہ اپنی ذات پر جھوٹ باندھنے والے کو کبھی فلاح نہیں دیتا، جب کہ اللہ نے نبیِ کریم کے تذکروں کو رہتی دنیا تک جاری و ساری فرما دیا ہے۔
سورۃ الحاقہ کے بعد سورۃ المعارج ہے۔ اس میں اللہ پاک نے قیامت کے دن کا ذکر کیا ہے کہ اس کی طوالت پچاس ہزار برس کے برابر ہوگی وہ دن ایسا ہوگا کہ مجرم کی خواہش ہوگی کہ اپنا آپ چھڑوانے کے لیے اپنے بیٹے یا اپنی بیوی اور اپنے بھائی کو پیش کر دے یا زمین میں جو کچھ ہے اس کو بطور فدیہ دے دے۔ اس دن جو لوگ عذاب سے بچیں گے ان کے اوصاف بھی بیان فرما دیے گئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنی پاک دامنی کا تحفظ کرنے والے ہوں گے۔ یہ لوگ امانتوں اور وعدوں کی پاس داری کرنے والے ہوں گے۔ یہ لوگ حق کی گواہی پر قائم رہنے ہوں گے اور نماز کی حفاظت کرنے والے ہوں گے اور یہ لوگ جنتوں کے حق دار ٹھہریں گے۔
اس سورت میں مشرقوں اور مغربوں کا خدا قسم کھا کر کہتا ہے کہ بے شک ہم قدرت رکھتے ہیں کہ برے لوگوں کو تبدیل کرکے ان کی جگہ اچھے لوگ لے آئیں اور ہم عاجز نہیں ہیں اور ان کے سامنے وہ دن لے آئیں جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ اس دن یہ لوگ قبروں سے نکل کر اس طرح دوڑیں گے جیسے شکاری شکار کے جال کی طرف دوڑتے ہیں۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی۔
سورۃ معارج کے بعد سورۃ نوح ہے۔ اس میں ارشاد ہے کہ ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ اس سے پہلے کہ ان پر دردناک عذاب واقع ہو ان کو ہدایت کر دیجیے۔ انھوں نے قوم سے کہا کہ میں تم کو صاف صاف نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کی عبادت کرو، اس سے ڈرو اور میرا کہا مانو، وہ تم کو بخش دے گا۔ جب اللہ کا مقرر کردہ وقت آ جاتا ہے تو تاخیر نہیں ہوتی۔
اس سورت میں جنابِ نوح علیہ السلام کی دین کے لیے محنت کی کارگزاری کو ان کی زبانی ارشاد فرمایا گیا ہے۔ جنابِ نوح ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو توحید کی دعوت دیتے رہے۔ انھوں نے رات دن اور سرِ عام اور ڈھک چھپ کر یعنی ہر حال میں اور ہر طریقے سے پوری تندہی سے اللہ کے دین کی خدمت کی اور اپنی قوم کے لوگوں کو یہ بات سمجھائی کہ وہ پروردگار سے استغفار کیا کریں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو اللہ بارشوں کو ان کی مرضی کے مطابق نازل فرمائے گا اور مال اور نرینہ اولاد دے گا اور ان کے لیے نہروں کو چلا دے گا اور باغات کو آباد کر دے گا۔ نیز ارشاد ہے کہ اللہ نے تمھیں زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی میں تمھیں لوٹا دے گا اور اسی سے تمھیں نکال کر کھڑا کر دے گا، اور اللہ ہی نے زمین کو فرش بنایا ہے تاکہ تم اس کے کشادہ راستوں پر چلو پھرو۔
پھر جنابِ نوح نے اللہ سے عرض کیا کہ یہ لوگ میرے کہے پر نہیں چلتے اور ایسوں کے تابع ہوئے ہیں جن کو ان کے مال اور اولاد نے سوائے نقصان کے کچھ نہیں دیا۔ انھوں نے بڑی چالیں چلیں اور لوگوں سے کہا کہ سواع، یغوث، یعوق اور نسر نامی بتوں کی عبادت ترک نہ کریں۔ اِنھوں نے لوگوں کو بہت گمراہ کیا ہے، تو اِنھیں اور گمراہ کر دے۔ پھر اُنھیں ڈبو دیا گیا اور پھر آگ میں ڈال دیا گیا۔ جنابِ نوح نے مزید دعا کی کہ اے میرے رب کافروں میں سے کسی کو زمین پر گھر میں بستا نہ رکھ، اگر تو انھیں رہنے دے گا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی اولادیں بھی ناشکری اور فاجر ہوں گی۔
جناب نوح نے دعا کی کہ اے رب مجھے اور میرے ماں باپ کو اور جو ایمان لاکر میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایمان والے مردوں اور عورتوں کو معاف فرما، اور ظالموں کے لیے تباہی کو اور بڑھا۔
سورۃ نوح کے بعد سورۃ جن ہے۔ اس میں اللہ پاک نے جنات کی ایک جماعت کے قبولِ اسلام کا ذکر کیا کہ انھوں نے قرآن کی تلاوت سنی تو کہنے لگے کہ قرآن کیا خوبصورت کلام ہے جو ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے، پس ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ہم اپنے پروردگار کے ساتھ شرک نہیں کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ پروردگار کا مقام بہت بلند ہے، نہ اس کی کوئی بیوی ہے اور نہ ہی کوئی بیٹا۔ انھوں نے قرآنِ مجید کے نزول کے بعد اپنی قوم کے لوگوں کو بھی توحید کی دعوت دی ۔ چنانچہ انسانوں کی طرح جنات کی بھی ایک جماعت اہلِ توحید میں شامل ہوگئی۔
ارشاد ہوا کہ مساجد صرف اللہ کے لیے ہیں۔ اللہ کے ساتھ کسی کو مت بلاؤ یعنی شرک نہ کرو اور حاجت روا صرف اللہ ہے۔ (اے نبی) آپ کہہ دیجیے کہ میں تو اپنے پروردگار ہی کی عبادت کرتا ہوں اور کسی کو اس کا شریک نہیں بناتا، اور یہ بھی کہہ دیجیے کہ میں تمھارے حق میں نقصان اور نفع کا کچھ اختیار نہیں رکھتا، اور یہ بھی کہہ دیجیے کہ اللہ کے عذاب سے مجھے کوئی پناہ نہیں دے سکتا اور میں اس کے سوا کہیں جائے پناہ نہیں دیکھتا۔ البتہ اللہ کے پیغام کا پہنچا دینا میرے ذمے ہے۔ جو شخص اللہ اور اس کے پیغمبر کی نافرمانی کرے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے۔
ارشاد ہوا کہ غیب کو جاننے والا صرف اللہ ہے اور وہ کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا۔ ہاں جس پیغمبر کو وہ پسند کرے اس کے آگے اور پیچھے وہ نگہبان مقرر کر دیتا ہے تاکہ معلوم فرمائے کہ پیغمبر نے رب کا پیغام پہنچا دیا ہے۔
سورۃ جن کے بعد سورۃ مزمل ہے۔ اس میں اللہ نے حضرت محمد علیہ السلام سے کہا ہے کہ پوری رات عبادت نہ کیا کریں بلکہ نصف رات یا اس سے کچھ زیادہ یا کم عبادت کیا کریں اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریں۔ آپ نے دن کو بھی تبلیغِ دین کے بہت سے کام انجام دینا ہوتے ہیں، اور اللہ کا نام وقفے وقفے سے لیتے رہا کریں۔ مشرق و مغرب کا مالک ایک اکیلا اللہ ہے اور آپ صرف اسی کو اپنا کارساز جانیے، اور یہ لوگ جو دلآزار باتیں کرتے ہیں ان کو سہتے رہیے اور اچھے طریقے سے ان سے کنارہ کش رہیے۔
پھر کفار سے خطاب ہے کہ ہم نے جنابِ موسیٰ کو فرعون کی طرف بھیجا لیکن اس نے پیغمبر کا کہا نہ مانا تو ہم نے اسے بڑے وبال میں پکڑ لیا۔ اگر تم بھی پیغمبر کی نہ مانو گے تو اس دن کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور آسمان پھٹ جائے گا؟
آپ کا رب خوب جانتا ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھی کبھی دو تہائی رات اور کبھی آدھی رات اور کبھی تہائی رات قیام کیا کرتے ہیں۔ آپ اتنا نباہ نہیں سکیں گے۔ چنانچہ جتنا آسانی سے ہو سکے اتنا قرآن پڑھ لیا کیجیے کیونکہ بعضے بیمار بھی ہوتے ہیں اور بعضے تلاشِ معاش میں سفر میں رہتے ہیں اور بعضے قتال فی سبیل اللہ میں مصروف ہوتے ہیں۔ پس نماز پڑھتے اور زکوٰۃ ادا کرتے رہیے اور استغفار کیا کیجیے، بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
سورۃ مزمل کے بعد سورۃ مدثر ہے۔ اس میں اللہ پاک نے حضرت محمد علیہ السلام کو حکم دیا ہے کہ اپنے اوپر لپیٹا ہوا کپڑا اتار پھینکیے اور اٹھ کر لوگوں کو ڈرائیے اور اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے۔ اپنے کپڑوں کو پاک رکھیے اور ناپاکی سے دور رہیے۔ اس نیت سے احسان نہ کیجیے کہ اس سے زیادہ کے طلب گار ہوں اور اپنے رب کے لیے صبر کیجیے۔
اس سورت میں صور پھونکنے اور قیامت کے بعضے مناظر کے ذکر کے ساتھ ساتھ بعض لوگوں کو دی گئی ڈھیل اور دنیاوی آسائشوں کے بعد ان کے انجامِ بد کا ذکر کیا گیا ہے اور ارشاد ہے کہ جو لوگ قرآنِ مجید کو غرور کی وجہ سے جھٹلاتے ہیں انھیں جہنم میں ڈالا جائے گا جس کے پہرے دار انیس فرشتے ہیں۔ جہنم میں لے جانے والے بڑے بڑے گناہوں میں نماز میں کوتاہی اور مساکین کو کھانا نہ کھلانے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ چاند، رات اور روشن صبح کی قسم کھا کر ارشاد ہوا ہے کہ جہنم کی آگ بہت بڑی آفت ہے۔
آگے ارشاد ہوا کہ ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے گروی ہے۔ البتہ دائیں ہاتھ والے لوگ جنتوں میں ہوں گے اور وہ جہنمیوں سے پوچھیں گے کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے ہو، تو وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے اور اہلِ باطل کے ساتھ مل کر حق سے انکار کرتے تھے اور روزِ جزا کو جھٹلاتے تھے یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی۔ سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی۔ یہ نصیحت سے منہ پھیر لیتے ہیں گویا گدھے ہیں کہ بدک جاتے ہیں یعنی شیر سے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں۔ ان میں کا ہر ایک چاہتا ہے کہ اس کے پاس کھلی ہوئی کتاب آئے، ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ درحقیقت ان کو آخرت کا خوف ہی نہیں ہے۔
اس کے بعد سورۃ القیامہ ہے جس میں اللہ پاک نے قیامت کی گھڑیوں کا ذکر کیا کہ یقینًا قیامت آئے گی اور کافر جو اللہ کے بارے میں یہ گمان کرتا ہے کہ وہ ہڈیوں کو دوبارہ کیسے بنائے گا تو اللہ کے لیے انگلیوں کے پوروں تک کو بھی دوبارہ ٹھیک ٹھیک پیدا کرنا مشکل نہیں ہے۔ جس دن آنکھیں چندھیا جائیں گی اور چاند گہنا جائے گا اور سورج اور چاند جمع کر دیے جائیں گے اس دن انسان کہے گا کہ اب میں کہاں بھاگ جاؤں؟ بے شک کہیں پناہ نہیں ہوگی۔
اس سورت میں وحی کے بارے میں تفصیلی بیان ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی، وحی کو پڑھنے کے لیے اپنی زبان نہ چلایا کیجیے تاکہ اسے جلد یاد کر لیں، اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمے ہے۔ جب ہم وحی پڑھا کریں تو آپ (اسے سنا کیجیے اور) اسی پھر طرح پڑھا کیجیے۔ اس وحی کے معنی کا بیان بھی ہمارے ذمے ہے۔
روح نکلنے کا وقت یعنی عالمِ نزع وہ سخت مرحلہ ہوتا ہے جب انسان اپنے مال و وسائل سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہاتھ جھاڑ کر ایک طویل سفر پر روانہ ہوتا ہے اور اپنے ساتھ صرف نیک و بد اعمال کا پشتارہ لے چلتا ہے تو اس مرحلے کی کیفیات کو مرنے والا تو بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتا، اس لیے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ جب روح سارے بدن سے کھینچ کر ہنسلی کی ہڈی (Collarbone) میں آکر اٹک جائے گی اور لوگ کہیں گے کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا، کوئی دوا دارو کرنے والا؟ حالانکہ مرنے والا تو سمجھ جاتا ہے کہ اب جدائی کا وقت آگیا ہے۔ روح نکلنے کی شدت کے باعث اس کی پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ رہی ہوتی ہے۔ یہی تو اپنے رب سے ملاقات کا وقت ہے۔
آخرِ سورت میں منکرینِ قیامت کے بارے میں ارشاد ہے کہ آخرت کو ترک کرنے والے یعنی عاقبت نااندیش نے نہ تو کلام اللہ کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی اور اپنے گھر والوں کے پاس اکڑتا ہوا چل دیا۔ تجھ پر افسوس ہے اور بارِ دگر انتہائی افسوس ہے۔ کیا انسان خیال کرتا ہے کہ اسے یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا؟ کیا نطفہ محض ایک قطرہ نہ تھا؟ پھر اللہ نے اس سے اعضا بناکر انھیں درست کیا اور اس کی دو قسمیں مرد و عورت بنائیں۔ کیا وہ اللہ اس بات پر قدرت نہیں رکھتا کہ موت کے بعد پھر کھڑا کر دے؟
اس کے بعد سورۃ دہر ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ انسان پر ایک دور ایسا تھا جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں تھا۔اللہ نے پانی کے قطرے سے اسے دیکھنے اور سننے والا بنا دیا۔ انسان کو دو راہیں بھی بتا دی گئیں، چاہے وہ شکر کرے چاہے انکار کرے۔ ارشاد ہوا کہ بے شک ہم نے کافروں کے لیے زنجیریں، طوق اور لپکتی ہوئی آگ کو تیار کیا ہے جب کہ نیک لوگ جنت میں جائیں گے جہاں ان کو اَن گنت نعمتیں حاصل ہوں گی۔
ارشاد ہے کہ ہم نے آپ پر قرآن کو آہستہ آہستہ نازل کیا ہے۔ آپ صبر کیے رہیے اور صبح شام اپنے رب کا ذکر کرتے رہیے، اور رات کو بڑی دیر تک اس کے آگے سجدے کیجیے اور اس کی پاکی بیان کیا کیجیے۔ آپ کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہ جو اللہ کو منظور ہو، بے شک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے اور ظالموں کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے۔
اس کے بعد سورۃ مرسلات ہے جس میں اللہ پاک نے متعدد مرتبہ قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے تباہی کا دن قرار دیا ہے اور کامیابی و کامرانی کو اہلِ تقویٰ کا مقدر قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ قیامت کا دن وہ ہے کہ لوگ ہونٹ نہ ہلا سکیں گے اور نہ ہی ان کو عذر کرنے کی اجازت ہوگی، اس دن کو جھٹلانے والوں کے لیے بڑی خرابی ہے۔ وہ دن فیصلے کا دن ہے جس میں ہم نے تم کو اور پچھلے والوں سب کو جمع کیا ہے، اگر تم کوئی چکر چلا کر بچ سکتے ہو تو چکر چلا لو۔ اس دن کو جھٹلانے والوں کے لیے بڑی خرابی ہے۔
البتہ اس دن پرہیز گار لوگ سایوں اور چشموں میں ہوں گے اور اپنے اچھے اعمال کے بدلے مزے سے کھا اور پی رہے ہوں گے۔ بے شک ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ اس دن کو جھٹلانے والوں کے لیے بڑی خرابی ہے۔ ان سے رکوع یعنی جھکنے کے لیے کہا جاتا ہے تو یہ نہیں جھکتے۔ اس دن کو جھٹلانے والوں کے لیے بڑی خرابی ہے۔ اس کے بعد اب یہ کون سی بات پر ایمان لائیں گے؟
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Website
Address
Iqbal Nagar Post Office Khas , City Chicha Watni, District Sahiwal
Sahiwal, 57200
This page is created to promote new young writers/poets.