The panjab
This is news page
ہاں جی ساہيوال والوں تيار ہو اپنے حق کيلئے
#چکن #بائيکاٹ
دنیا میں سب سے کامیاب ترین اور سچے انسان ہمارے نبی حضرت محمدؐ ہیں۔ 💝
وہ سحری کا مزہ وہ افطاری کا انتظار وہ قرآن کی تلاوت وہ روزے کا نور بس کچھ دن دور اللّٰہ پاک ہم سب کو نصیب فرمائے آمین 🤲
ماواں ٹھنڈیاں چھاواں ♥️
اللّٰہ پاک سب کی ماؤں کو صحت تندرستی والی لمبی زندگی عطا کرے آمین یا رب العالمین
*✨انسان کی سب سے بڑی ضرورت سکون ہے اور وہ بس اللّٰه تعالیٰ کی یاد میں ہے💯💦*
خانہ کعبہ کو چُھونا میری سب سے بڑی خواہش ہے یا رب مجھے اور پوسٹ پڑھنے والے کو"مکہ مدینہ" کی حاضری نصیب فرما آمین🤲♥️❤️
انشاللہ12 مارچ سے فروٹ کا مکمل بائیکاٹ کریں گے جب تک فروٹ کی قیمت نیچے نہ آ جائے۔
اس مہم کا حصہ بنیں۔ بہتری کی کوشش ہم سب کا فرض ہے۔
اے آنے والے رمضان تیرے آنے میں اب چند ہی دن باقی ہیں میرا مولا ہمیں اتنی توفیق دے کہ ہم تیرے فضائل سے جھولیاں بھر سکیں آمین
پسپ پروگرام کے تحت ساہیوال شہر کی 4 بڑی سڑکوں کی کارپٹنگ کا باضابطہ آغاز ہو گیا۔ خصوصی افتتاحی تقریب مال منڈی چوک میں منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی کمشنر ساہیوال ڈویژن شعیب اقبال سید تھے جبکہ ایڈیشنل کمشنر کوارڈینیشن شفیق احمد ڈوگر، ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ ڈاکٹر سیف اللہ، ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ قیوم قدرت، ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز محمد عقیل اشفاق، ڈپٹی ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ اظہر نبی دیوان، سٹی مینجر پسپ محمد اسجد خان اور ساہیوال چیمبر کے صدر شیخ بشارت ندیم، تاجر نمائندوں اور شہریوں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔ سٹی مینجر محمد اسجد خان نے بتایا کہ پسپ پروگرام کے تحت شہر کی سڑکیں ہائی سٹریٹ (جوگی چوک سے مال منڈی چوک)، کالج روڈ (مال منڈی چوک سے کالج چوک)، فرید ٹاؤن روڈ (آرٹس کونسل چوک سے کمپری ہنسو سکول چوک) اور علامہ اقبال روڈ (ڈی سی آفس چوک سے مشن چوک) ایک ارب80کروڑ روپے کی خطیر رقم سے تعمیر ہونگی جنہیں مرحلہ وار مکمل کر کے عوام کے لئے کھول دیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں ہائی سٹریٹ اور علامہ اقبال روڈ کو 30جون تک مکمل کر لیا جائے گا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے۔ کمشنر شعیب اقبال سید نے کہا کہ پسپ پروگرام کے تحت سیوریج اور پانی کی فراہمی کے بڑے منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے جس کے لئے شہریوں کو درپیش مسائل سے انتظامیہ بخوبی آگاہ ہے اور انہیں کم کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال کے آخر تک اس بڑے منصوبے کی تکمیل سے شہر کی سیوریج اور پانی کی 50سال کی ضروریات پوری ہو سکیں گی۔ انہوں نے مشکلات برداشت کرنے اور تعاون کرنے پر ساہیوال چیمبر، تاجر نمائندوں اور شہریوں کے جذبے کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ شہر کا تمام کوڑا ایک ہی جگہ ڈمپ کرنے اور شہر کو مزید سر سبز بنانے کے لئے زیادہ درخت لگانے کے بڑے منصوبے پر بھی کام جاری ہے اور بہت جلد ساہیوال کے لئے ایک لینڈ فل سائٹ بھی مختص کر دی جائے گی جہاں شہر کا تمام کوڑا ڈمپ ہو گا۔
یہ انجن 1968 میں کولووال ننگیانہ ضلع سرگودہا کے رہاٸشی شخص نے 400 روپے میں لاہور اتفاق فونڈری سے خریدا تھا اور بقول اس کے 137 روپے کرایہ میں لاہور سے کولووال ننگیانہ سرگودہا پہنچا تھا۔
انجن کا وزن 40 من سے زیادہ ہے۔ آج کباڑ میں یہ دو لاکھ سے زیادہ قیمت میں فروخت ہوا ہے۔
This engine was bought by a resident of Kollowal Nangiana district Sargodha in 1968 for 400 rupees from Ittefaq Foundry Lahore and according to him it was brought from Lahore to Kollowal Nangiana Sargodha for a rent of 137 rupees. The weight of the engine is more than 1600 kg.s. Today it was sold in the junkyard for more than two lakhs
تعلیم ضروری ہے
چاہے میٹرک تک ہی ہو 🤣
Congratulations 🥳 💝🥰
الحمدللہ ببلو نے حلال کمائی شروع کردی ہے اور بسوں میں بسکٹ ٹافیاں بیچتا ہے ❤️ آپ لوگ کہتے تھے ہم اس کے پیچھے پڑے رہتے ہیں دیکھیں فائیدہ ہوا ہے اس نے فراڈ کرنا اور رزق ضائع کرنا چھوڑ دیا کیونکہ ہم نے لوگوں کو بتایا تھا اس لیے اگر کوئی غلط کرتا ہے تو اس کو ایکسپوز لازمی کریں اور اگر سدھر جائے تو حوصلہ افزائی بھی کریں
انسان محنتی ہو تو کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے ❤️❤️
مریم نواز کی 45 سال بعد اپنی کلاس فیلو سے ملاقات
جزباتی مناظر دیکھئیے😂😂
آج کل کے موسم کی سوغات
JUJUBE
جس کو بیر کہتے ہیں۔۔
بے انتہاء فوائد پر مشتمل ہیں جن میں سے چند زیر غور ہیں :
اس میں پوٹاشیم وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے جو بلڈ پریشر کنٹرول کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے ۔
اس میں موجود میگنیشیم ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے ۔
یہ قوت مدافعت کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
اس میں موجود وٹامن سی اور اینٹی آکسیڈنٹس کینسر میں بچاو کے لیے مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔
بیر کا GI 20 ہے ۔
اس کا استعمال ایک کپ دن میں دو بار کیا جاسکتا ہے ۔
یہ شوگر اور بلڈ پریشر والے مریضوں کے لیے انتہائی مفید ہے۔
👍
آج کا پاکستانی مسلمان IMF کے کہنے پر 41 قسم کے ٹیکس دینے کیلئے تیار ہے لیکن اللہ کے حکم پر ڈھائی فیصد زکواة دینے کیلئے تیار نہیں ہے😢😔
سچ کڑوا ہوتا ہے 🙏🙏
ساہيوال ميں پہلی بار سپرنگ آلو چپس
يہ آپ کو ملے کی فوڈ سڑيٹ مزدور پلی شيخ فاسٹ فوڈ کے سامنے
Imran book dipo par mile whole sales ka saman wo bhi intihaei kam kimat par jaein aur visit kare ja kar hamri post ke zarye kareed dari karein.
Books
Quran Majeed❤️
Stationary
Bats and etc.
اوکاڑہ
اوکاڑہ اپنی تاریخی حیثیت بھی رکھتا ہے یہاں بھومن شاہ مندر اور میر چاکر رند بلوچ جیسی تاریخی عارتیں بھی ہیں جن میں بھومن شاہ مندر رند بلوچ کا زکر پہلے ہو چکا ہے۔۔
ایک ایسے شہر کا تزکرہ جس کا سفر ایک سرائے سے شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک گنجان آباد علاقہ میں بدل گیا۔ اس شہر کا نام اوکاں نامی پودے سے منسوب ہے جس کا اٹھارہویں صدی عیسوی یہاں ایک جنگل ہوا کرتا تھا۔ اس راستے سے گزرنے والے مسافر عموماً اس گھنے جنگل میں ٹھہراﺅ کرتے اور پھر اپنی منزل کی طرف نکل جاتے۔
اوکاڑہ کو یہ نام ملنے سے پہلے دو دوسرے نام "اوکاں والا" اور "اوکاں اڈہ" بھی حاصل رہے۔ تاریخ 1849ء میں پنجاب پر برطانوی قبضے کے بعد دو سال پاکپتن ضلعی ہیڈ کوارٹر رہا 1851ء میں انگریزوں نے ایک نئے ضلع منٹگمری کی بنیاد رکھی جس کا ہیڈ کوارٹر گوگیرہ کو بنایا گیا۔ تب موجودہ ساہیوال، پاکپتن اور اوکاڑہ اسی ضلع کے حصے تھے۔ 1865ء میں ضلع کا ہیڈ کوارٹر ساہیوال (تب منٹگمری) میں شفٹ کر دیا گیا۔ بیسویں صدی کے آغاز تک اوکاڑہ ضلع منٹگمری کا ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ اوکاڑہ آباد ہونے سے پہلے یہاں اوکاں کا جنگل ہوا کرتا تھا۔
دی اربن یونٹ کے تحت اوکاڑہ پر تیار کی گئی رپورٹ کے مطابق نہری نظام متعارف کروائے جانے سے پہلے اوکاڑہ ایک بنجر علاقہ تھا۔ 1913 میں پہلے لوئر باری دوآب اور اسکے بعد پاکپتن و دیپالپور نہروں نے اس علاقے کو کھیتی باڑی کا مرکز بنا دیا۔ 1918ء میں ریلوے لائن بچھنے سے اوکاڑہ کراچی اور لاہور سے جڑ گیا جبکہ 1925ء تک اوکاڑہ کو سڑکوں کے ذریعے سبھی بڑے شہروں کیساتھ جوڑا جا چکا تھا۔
1913ء میں اوکاڑہ کو ٹاؤن کمیٹی اور پھر 1930ء میں میونسپل کمیٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ میونسپل کمیٹی درجہ ملتے ہی اوکاڑہ کو تحصیل آفس اور پولیس اسٹیشن کی سہولیات بھی میسر ہوگئیں۔
1936ء میں جب اوکاڑہ میں برلا گروپ نے ستلج ٹیکسٹائل مل کی بنیاد رکھی تو اوکاڑہ کیلئے معاشی ترقی کے دروازے کھل گئے۔ اردگرد کے علاقوں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس مل میں ملازمت کیلئے آکر شہر میں آباد ہو گئی۔
1942ء میں یہاں مارکیٹ کمیٹی بننے کے بعد اوکاڑہ کو زرعی اجناس کی تجارت کے علاوہ سبزی و فروٹ منڈی، غلہ منڈی، تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال، گورنمنٹ ہائی سکول (بوائز و گرلز)، ٹیلیفون ایکسچینج، پاور ہاؤس، میونسپل پارک اور پوسٹ آفس کی سہولیات دستیاب ہوگئیں۔
تقسیم سے پہلے اوکاڑہ کی آبادی کا بڑا حصہ ہندو اور سکھ آبادی پر مشتمل تھا جو کہ پاکستان بننے کے بعد انڈیا چلی گئی اور انڈیا سے ہجرت کر کے آنیوالے مسلمانوں کو اوکاڑہ میں زمینیں الاٹ کر دی گئیں، جس سے اوکاڑہ مزید پھیلتا گیا۔ 1967ء میں یہاں فوجی چھاؤنی بنائی گئی۔
1982ء میں اوکاڑہ کو ضلع کا درجہ دیا گیا تب یہ دو تحصیلوں دیپالپور اور اوکاڑہ پر مشتمل تھا
اوکاڑہ کے مشرق میں قصور، مغرب کی طرف ساہیوال اور پاکپتن، شمال میں فیصل آباد اور شیخوپورہ سے جبکہ جنوب میں بہاولنگر واقع ہے۔ دریائی اعتبار سے اوکاڑہ میں تین دریا مشرق میں ستلج، مغرب میں راوی اور بیاس بہتے ہیں۔ بیاس اب مکمل طور پر خشک ہوچکا ہے جبکہ ستلج میں سال کا زیادہ عرصہ پانی کی مقدار کافی کم دیکھنے کو ملتی ہے۔
رقبہ و آبادی ضلع اوکاڑہ اس وقت تین تحصیلوں پر مشتمل ہے جس میں اوکاڑہ، دیپالپور اور رینالہ خورد شامل ہیں۔ ضلع اوکاڑہ کا رقبہ چار ہزار 377 مربع کلومیٹر ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی تقریباً 22 لاکھ تھی جو کہ اس وقت ایک اندازے کے مطابق 32 لاکھ ہو گٸ ہے
تعلیمی لحاظ سے ضلع اوکاڑہ میں بارہ ڈگری کالجز، پانچ ہائر سکینڈری سکولز، ایک سو بتالیس سکینڈری، ایک سو اکاون مڈل سکول، بارہ سو ستاون پرائمری سکول جبکہ ایک یونیورسٹی بھی موجود ہے
روحانی شخصیت جن کا فیض عام ہے جو اب اس شہر کی پہچان بھی حضرت بابا جی سرکار کرمانوالا ان کا دربار بھی اس شہر کی زینت ہے۔
اس کے علاوہ ایک تاریخی شخصیت میر چاکر خان رند، بلوچ قبیلے رند کا سردار تھا جس نے 1518ء میں اوکاڑہ کے علاقہ ستگھرہ کو اپنا مسکن بنایا۔ وہ اپنی فوج کے ہمراہ پنجاب پر حملہ آور ہونیوالی افغان فوجوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ شیر شاہ سوری اور مغل بادشاہ ہمایوں کی لڑائی میں انہوں نے مغل بادشاہ کا ساتھ دیا۔ 1556ء میں دہلی تخت پر بیٹھنے کے بعد مغل بادشاہ ہمایوں نے میر چاکر رند کو ایک بڑی جاگیر سے نوازا۔ میر چاکر خان رند کی وفات 1565ء میں ہوئی۔ ان کا مقبرہ آج بھی ستگھرہ میں موجود ہے۔
احمد خان کھرل پنجاب کی دھرتی کا وہ سپوت ہے جس نے رنجیت سنگھ کے بعد انگریز کا اس علاقے میں راستہ روکا۔ اوکاڑہ کےگاؤں جھامرے سے تعلق رکھنے والے اس راٹھ نے مقامی قبائل کو ناصرف ایک جگہ اکٹھا کیا بلکہ انگریز کیخلاف بغاوت کیلئے آمادہ بھی کیا۔اوکاڑہ کے اس سپوت کو 21 ستمبر 1857 کے دن شہید کیا گیا۔
اللہ تعالیٰ ان کے رزق میں برکت عطا فرمائے اور سب کے لیے آسانی پیدا فرمائے آمین 🌷🌷
سب سے اچھا عمل کسی کو کھانا کھلانا اور پانی پلانا ہے
When kissing began in politics, Sheikh Sahib kissing Mian Sahib.
جب سیاست میں چمہ بازی کا آغاز ہوا۔شیخ صاحب میاں صاحب کا چمہ لیتے ہوئے———
آج ایک پٹواری موٹر سائیکل پیدل لیکر جارہا تھا کسی نے پوچھا تو شرمندہ ہوکر بولا
ٹینکی فل ہے پلگ کا مسئلہ ہے
یہاں جمع ہونے کی بجاۓ اگر یہ اسمبلی کے سامنے کھڑے ہوگۓ تو شاید کچھ فرق پڑ جاۓگا۔۔۔
قصور روڈ پر اڈہ صالحوال کے قریب کار موٹر سائیکل سے ٹکرا کر اُلٹ گئی طالب علم بہن بھائی سمیت4افراد جاں بحق خاتون زخمی*
قصور روڈ پرتیز رفتار کار موٹر سائیکل سے ٹکرا کر اُلٹ گئی۔ ریسکیو
ٹریفک حادثہ میں دوافراد موقع پر دو اسپتال پہنچ کرجاں بحق ہوئے ایک خاتون زخمی ہے۔ ریسکیو ذرائع
ریسکیو رضا کاروں نے موقع پر پہنچ کر لاشوں اور زخمی خاتون کو اسپتال منتقل کردیا
متوفیان میں عیسرہ بی بی اسکا بھائی فراز کارڈرائیوراحمد علی اورموٹر سائیکل سوارعمران شامل
موٹر سائیکل سوار عمران اپنی والدہ کو منڈی احمد آباد سےلیکر پاسپورٹ بنوانے جارہا تھا
طالب علم بہن بھائیوں فراز اور عیسرہ کو کار ڈرائیوراحمد علی کالج چھوڑنے جارہا تھا
زیادہ اموات کار کےموٹر سائیکل سے ٹکرا کرالٹنےکے باعث ہوئیں۔ریسکیو ذرائع
سرگودھا
سرگودھا شہر کی بنیاد ایک انگریز خاتون لیڈی ٹروپر نے 1903 میں رکھی سرگودھا شہر پاکستان کا پہلا شہر ہے جس کو ماسٹر پلان کے تحت آباد کیا گیا اس کے بعد فیصل آباد اور اسلام آباد دو شہر مزید ماسٹر پلان کے تحت آباد ہوے :
1860 کی بات ہے جہاں آج کل گول مسجد ہے وہاں ایک تالاب ہوتا تھا ، اور تالاب کو فارسی زبان میں سر کہتے ہیں . اس گول تالاب کا مالک ایک ہندو سادھو تھا جس کا نام گودھا تھا اس وجہ سے اس نوآباد شہر کا نام سرگودھا رکھا گیا.پاکستان بننے کے بعد بھی اس جگہ کو گول کھوہ کہا جاتا رہا۔
اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیش_نظر بہت جلد آبادی بڑھتی گئی. اسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوۓ انگریز حکومت نے یہاں پر ایک عسکری سطح کا ایئر پورٹ بنایا ایک فوجی چھاؤنی تعمیر کی 1949 میں اسکو تحصیل کا درجہ دیا گیا جو ترقی کرتے کرتے بعد میں ضلع اور پھر ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بنا تقسیم پاکستان کے وقت قانون ساز اسمبلی کی ایک نشست تھی جو مسلم لیگ کے امیدوار نواب سر محمد حیات قریشی نے جیتی تقسیم کے وقت یہ علاقہ مسلم لیگ کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا 1946 کے انتخابات میں باباۓ قوم نے 2 دفعہ سرگودھا کا دورہ کیا :
سرگودھا کی زیادہ تر آبادی کا انحصار زراعت پہ ہے
سنگترہ مسمی فروٹر بلڈ مالٹا ریڈ بلڈ مالٹا اور گریپ فروٹ کی پیداوار میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے چاول کی پیداوار میں 11واں جبکہ گنے کی پیداوار میں دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے دیگر زرعی اجناس بھی اس ضلع میں کثرت سے پاٸی جاتی ہیں سلانوالی میں لکڑی کا بہت عمدہ کام ہوتا ہے جسکو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے
اپنی زرعی پیداوار کی وجہ سے سرگودھا کو کیلی فورنیا آف پاکستان کہا جاتا ہے سرگودھا کی تحصیل ساہیوال بہت بڑی تاریخی حیثیت رکھتی ہے ایک یونیورسٹی 1 میڈیکل کالج 1 لاء کالج 1 ٹیوٹا کالج ایک ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ اور عمومی تعلیم کے لیے 16 کالج 5 کامرس کالج ایک پی ایف کالج 31 سے زائد پبلک کالج موجود ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی 30 فیصد جبکہ سرگودھا کا لٹریسی ریٹ 80 فیصد کے قریب پہنچ چکا ہے
سرگودھا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 1965 کی جنگ میں دشمن کی فضائیہ کے حملوں میں افواج پاکستان کا ساتھ دینے پر نشان استقلال اور صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا پاکستان میں یہ اعزاز سرگودھا سیالکوٹ اور لاہور کے علاوہ کسی شہر کو حاصل نہیں ہوا راشد منہاس نشان حیدر کا آبائی وطن بھی سرگودھا ہے کرنل غلام حسین نشان جرات جو 65 کی جنگ میں نماز پڑھتے ہوۓ شہید ہوے تھے اس کے علاوہ 65 کی جنگ کے ہیرو سرفراز رفیقی ایم ایم عالم کا تعلق بھی سرگودھا سے تھا
65 کی جنگ میں دنیا کا حیرت انگیز معرکہ جس میں پاکستان کے ایک ہوا باز نے صرف 34 سیکنڈ میں انڈیا کے 5 جہازوں کو ٹکڑوں اور شعلوں میں تبدیل کیا وہ تاریخی معرکہ بھی سرگودھا کی سرزمین پر لڑا گیا روس افغان وار کے اہم کردار جنرل غلام محمد کنڈان کا تعلق بھی سرگودھا سے ضلع سرگودھا میں 7 تحصیلیں. کوٹ مومن۔بھیرہ۔سلانوالی۔شاہ پور۔ساہیوال۔بھلوال۔اور سرگودھا۔شامل ہیں
59 ٹاؤن کمیٹی 161 یونین کونسلیں ہیں. ضلع سرگودھا کی آبادی 1998 کی مردم شماری کے مطابق 2665979 جبکہ شہر سرگودھا کی آبادی 458440 افراد پہ مشتمل ہے آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا 11واں بڑا شہر ہے جو کہ فیصل آباد سے 94 لاہور سے 172 جبکہ موٹر وے سے 48 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے.
کل رقبہ 5884 مربع کلومیٹر ہے . دریاۓ جہلم اور چناب کے درمیان ایک خوبصورت شہر ہے ایک چھوٹا سا پہاڑی سلسلہ کرانہ بار جو اپنے کرش کے معیار کی وجہ سے پنجاب بھر میں مشہور ہے 90% لوگوں کی زبان پنجابی 10% اردو جبکہ ہندکو پشتو پوٹھوہاری کشمیری سرائیکی بولنے والے بھی موجود ہیں یہاں پر ایک زرعی کالج اور بہترین نہری نظام ہے. ضلع میں قومی اسمبلی کی 5 اور صوبائی اسمبلی کی 10 نشستیں ہیں. موٹر وے کی 5 انٹر چینجز ضلع بھر کو لنک کرتی ہیں.
ملنگی
اصل نام احمد خان تھا انگریز حکومت میں حریت پسندوں کی قیادت کی اور لگاتار 26 سال تک انگریز حکومت کا امن حرام کیے رکھا آپکا یہ نعرہ بہت مشہور ہوا تھا کہ "دن نوں راج فرنگی دا تے رات نوں راج ملنگی دا"مشہور شاعر احمد ندیم قاسمی وصی شاہ اور مایہ ناز کرکٹر محمد حفیظ اور رانا نوید الحسن بھی اس ضلع کے ہیں
سرگودھا کو شاہینوں کی سر زمین کہا جاتا ہے
یہ شہر زرخیزی میں اپنی مثال آپ ہے
panjab punjab panjab
مرغی میں اچانک سے برڈ فلو جیسی خطرناک بیماری شروع ہو گئی عوام کو اطلاع دیئا جاتا ہے مرغی کھانے سے پرھیز کریں ۔۔۔۔۔۔فوڈ کنٹرول اتھارٹی ۔۔۔۔۔۔۔؟
Click here to claim your Sponsored Listing.
Category
Contact the business
Telephone
Website
Address
CHAK NO 56/5-L
Sahiwal, WATTO1022
we want upload social experiment and crimes reports political news etc.
Sahiwal
دیکھو پاکستان اک نیوز چینل ہے اور اس سے آپ کو سیاسی سماجی اور معاشرتی خبریں ملیں گی
Farid Town Scheme No 3
Sahiwal, 57000
assalam o alikum we deliver here latest update pf govt and education releated....keep u up to date