Athar Farooq
Public Page
!!
تاریخ میں دھارا نگری، انہل، واڑا ، انہل پتن، گڑوہ، اجودھن کے ناموں سے مشہورتھا مشہور صوفی بزرگ بابا فرید گنج شکر کا روضہ اسی شہر میں ہے۔
پاکپتن شہر کے جنوب میں دریائے ستلج بہتا ہے پاکپتن کماری والہ ہیڈ پر ایک ڈیم بنایا گیا ہے جو اس وقت پاکپتن کو بجلی فراہم کرتا ہے سلطان محمود غزنوی نے یہاں پہلی اسلامی حکومت قائم کی، تین سو سالہ مغلیہ دورِحکومت کے بعد راجا رنجیت سنگھ یہاں حکمران ہوا، جس کو انگریزوں نے شکست دی اور قیام پاکستان تک قابض رہے _
پاکپتن کے جنوب میں ضلع بہاولنگر، شمال مشرق میں ضلع اوکاڑه، شمال مغرب میں ضلع ساہیوال اور مغرب میں ضلع وہاڑی واقع ہیں
پاکپتن ایک تاریخی شہر ہے ۔یہاں کی آبادی بہت کم لوگوں پر مشتمل تھی ۔لیکن حضور بابا فرید الدین کی آمد کے ساتھ ہی آبادی میں واضع تبدیلی ہوئی ۔یہاں کی سکھ اور ہندو آبادی کو مسلمان کیا پاکپتن کو امن سلامتی کا گھر بنا دیا۔
پاکپتن دریا ستلج کے کنارے پہ واقع ہے ۔پہلے یہ دریا پاکپتن کے ساتھ بہتا تھا۔
جہاں اب آبادی 6 لاکھ سے زیادہ ہے اب دریا اس آبادی سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پہ ہے
پاکپتن سے اک سڑک نکلتی ہے جو ملتان سے دہلی تک جاتی ہے ۔پہلے یہ کچی تھی ۔جس کو پرمٹ کے نام سے جانا جاتا تھا ۔اب مرلے روڈ یا پر غنی روڈ بولا جاتا ہے ۔یہ انگریز دور میں اک اہم تجارتی راستہ تھا ۔
،پاکپتن بھول بھلیوں کی طرح ہے جہاں ہر موڑ پر ایک حیرت کھڑی ہے ۔پاکپتن ہندکے انسان کے تہذیبی ارتقاء کی دلچسپ کہانی ہے، کئی بار اسکی بساط کو الٹی، طوفان ہائے بادو باراں ، حملہ آوروں کی خون آشام سفاکیوں نے اس کو بلند ٹیلے میں تبدیل کردیا ، اس ٹیلے (ڈھکی)کی بلندی اسی فٹ ہے اور یہ شہر تقریبا ستر مرتبہ زمیں بوس ہو کر خاک بنا۔تاریخ پاکپتن میں درج ہے کہ یہ شہر5000 سال پرانا ہے، حضرت عیسیؑ کی پیدائش سے تین سو پچیس سا پہلے یہ قصبہ موجود تھا۔ رگ وید آف انڈیا کے مطابق اجودھن کی تہذیب 25ہزار سال پرانی ہے، شمالی ہندوستان میں اجودھن ہندووں کا بہت بڑا مذہبی مرکز تھا ، یہ شہر ایک مضبوط قلع کی مانند تھا،اسکے گرد چار دیواری تعمیرکی گئی تھی اور چھ مشہور دروازے بناے گئے تھے جن کے نام لال دروازہ، سرکی دروازہ، ابودروازہ، موری دروازہ، رحموں دروازہ ، اور شہیدی دروازہ قابل ذکر ہیں۔
ُُؒٓلال دروازہ!۔
یہ دروازہ جنوب کی طرف فورہ چوک کے مشرق اور ایم سی ہائی سکول اور پولیس چوکی کے سامنے واقع ہے یہ دروازہ قدیم عہد کی زندہ تصویر ہے، محقیقین کی قلم اس دروازے پر ابھی تک خاموش ہے۔
سرکی دروازہ!۔
یہ دروازہ بابا فرید کے مزار کے مشرق جانب ہے یہ درگاہ بازار کے نام سے مشہور ہے ، زائرین پہلے دروازے سے آیا کرتے تھے اب بھی بہشتی کے دوران زائرین کا اخراج اسی بازار سے کیا جاتا ہے ایک بم دھماکے کے بعد یہ دروازہ مکمل پرانی طرز پر نیا بنا ہے ۔
ابو دروازہ!۔
یہ شہر کے مشرق کی طرف پرانی سبزی منڈی کے قریب ڈھکی پر ہے۔ اسکا اسم دیوان عبدالرحمن کے نام پر رکھا گیا تھا، محکمہ آثار قدیمہ کی غفلت اور باسیو ں کی بے اعتنائی کی بدولت یہ دروازہ اپنا وجود کھو بیٹھا اب اس دروازے کے ایک حصے کا فقط کچھ حصہ باقی ہے محکمہ آثار قدیمہ سے اس کی فور ی مرمت نا کر کے مجرمانہ غفلت سر زد ہوئی جو آنے والی نسلیں اسکو نا دیکھ سکیں گی ۔
شہیدی دروازہ!۔
جنوب کی طرف صرافہ بازار میں ہے یہ بازار قدیم زمانوں میں بھی گولڈ کی مارکیٹ تھا لوگ دور دراز سے سونے کی خرید و فروخت کے لیے آتے،اس دروازے کے بارے میں عام روایت یہی ہے کہ دیوان عبدالسبحان کے عہد میں حجرہ شیر گڑھ کے سادات اور قصور کے پٹھانوں کے درمیان لڑائی ہوئی سادات حجرہ یہاں آکر پنا ہ گزیں ہوے اور انکی حفاظت کرتے ہوے دیوان عبدالسبحان اسی دروازے کے قریب شہید ہو ے انکی شہادت کی بنا پر اس کا نام شہیدی دروازہ رکھا گیا۔ا س دروازے کی جبیں پر ایک چوبی کنندہ تختی نصب ہے جس پر تسمیہ کے ساتھ دروازے کی تاریخ اور افتتاحی کلمات درج ہیں ، دیمک خوردنی کی بنا پر تختی پر کندہ تمام عبارت مٹ چکی ہے۔
موری دروازہ!۔
یہ دروازہ شمال کی طرف گلی حضرت میاں علی محمد بسی شریف کے بلمقابل ڈھکی پر واقع ہے ،اس دروازے سے گزرنے کے لیے ایک چھوٹی کھڑکی ہے اس کی مناسبت سے اس کا نام موری دروازہ ہے اس کے پہلو میں عہد قدیم کی شاہکار ایک مسجد بھی ہے جس میں پیر حضرت میاں علی محمد آف بسی شریف اپنی حیات میں ہر ماہ رمضان میں مع مریدین نماز تراویح ادا کیا کرتے تھے، پاکستان سے قبل موری دروازہ کو ہانڈیاں والا دروازہ بھی کہتے تھے یہ دروازہ اب باسیوں کی بے مروتی کا رونا رو رہا ہے اس دروازہ کا ایک پاٹ آج بھی پوری طرح موجود ہے اور دوسرے کا وجود بھی نہیں۔
رحموں دروازہ!۔
مغرب کی جانب ٹاون ھال کے بالمقابل واقع ہے، اس کی وجہ شہرت کے بارے میں کوئی مستند معلومات میسر نہیں تاہم بابا فرید گنج شکر ؒکے مزار کی قربت کی بنا پر پہلے یہ رحمت دروازہ سے مشہور تھا بعد ازاں رحموں سے مشہور ہو تا گیا اور آج یہ دروازہ مزار کی طرف بند ہو گیا اس کی ایک دیوار بلکل ختم ہو گئی ہے دوسری سائیڈ محکمہ آثار قدیمہ کے بے حسی کا رونا رو رہی ہے۔
آج پاکپتن اپنی ترقی کی منازل طہ کر رہا ہے لیکن قدیم تہزیبوں کا جھلک آج بھی یہاں نمایاں ہے اس ضلع میں نا صرف بابا فریدؒ ہیں بلکہ یہاں پیر سید وارث شاہ نے اپنی ہیر مکمل کی ملکہ ہانس میں۔اور پھر یہاں بابا بھلے شاہ بھی رہے جن کی یاد اور فیض آج بھی ملکہ ہانس میں موجود ہے حضرت خواجہ عزیز مکی اور صحابی رسول حضرت عمیر مدنی سے منسوب مزار بھی پاکپتن کی زینت ہے.
✍️مائیكل ہارٹ نے اپنى كتاب’’ سو عظيم شخصيات‘‘ كو لكھنے ميں 28 سال كا عرصہ لگايا ، اور جب اپنى تاليف كو مكمل كيا تو لندن ميں ايك تقريب رونمائى منعقد كى جس ميں اس نے اعلان كرنا تھا كہ تاريخ كى سب سے ’’عظيم شخصيت‘‘ كون ہے؟
جب وہ ڈائس پر آيا تو كثير تعداد نے سيٹيوں ، شور اور احتجاج كے ذريعے اس كى بات كو كاٹنا چاہا، تاكہ وہ اپنى بات كو مكمل نہ كرسكے۔۔۔
پھر اس نے كہنا شروع كيا:
ايك آدمى چھوٹى سى بستى مكہ ميں كھڑے ہو كر لوگوں سے كہتا ہے ’’مَيں اللہ كا رسول ہوں‘‘ ميں اس ليے آيا ہوں تاكہ تمہارے اخلاق و عادات كو بہتر بنا سكوں، تو اس كى اس بات پر صرف 4 لوگ ايمان لائے جن ميں اس كى بيوى، ايك دوست اور 2 بچےتھے۔
اب اس كو 1400 سو سال گزر چكے ہيں۔۔۔ مرورِ زمانہ كہ ساتھ ساتھ اب اس كے فالورز كى تعداد ڈيڑھ ارب سے تجاوز كر چكى ہے۔۔۔ اور ہر آنے والے دن ميں اس كے فالوروز ميں اضافہ ہورہا ہے۔۔۔ اور يہ ممكن نہيں ہے كہ وہ شخص جھوٹا ہے كيونكہ 1400 سو سال جھوٹ كا زندہ رہنا محال ہے۔ اور كسى كے ليے يہ بھى ممكن نہيں ہے كہ وہ ڈيڑھ ارب لوگوں كو دھوكہ دے سكے۔ ۔۔
ہاں ايك اور بات!
اتنا طويل زمانہ گزرنے كے بعد آج بھى کروڑوں لوگ ہمہ وقت اس كى ناموس كى خاطر اپنى جان تك قربان كرنے كے ليے مستعد رہتے ہيں۔۔۔ كيا ہے كوئى ايك بھى ايسا مسيحى يا يہودى جو اپنے نبى كى ناموس كى خاطر حتى كہ اپنے رب كى خاطر جان قربان كرے۔۔۔۔؟
بلا شبہ تاريخ كى وہ عظيم شخصيت ’’ حضرت محمد ﷺ‘‘ ہيں۔۔۔۔۔
اس كے بعد پورے ہال ميں اس عظيم شخصيت اور سيد البشر ﷺ كى ہيبت اور اجلال ميں خاموشى چھا گئ.
پاکستان ڈیفالٹ کرے گا نہ ترقی کرے گا۔
بس ایسے ہی لولا لنگڑا ذلالت کی منزلیں طے کرتا رہے گا۔
ڈیفالٹ کیوں نہیں کرے گا؟
مرا ہوا، مکمل تباہ شدہ پاکستان کسی کے مفاد میں نہیں۔ نہ دوستوں کے نہ دشمنوں کے۔
ترقی کیوں نہیں کرے گا؟
ہماری قوم کا ترقی کرنے والا کردار نہیں ہے۔ ساری قوم بگڑی ہوئی ہے۔ لتروں کے لائق ہے۔ جسکا جتنا بس چلے اتنا ہی بے ایمان ہے۔
کسی سگنل پر کھڑے ہوجائیں ذرا مشاہدہ کریں کتنے لوگ سگنل پر رکتے ہیں اگر پولیس نہیں ہے؟
روڈ کریکٹر ہی قومی کریکٹر ہے۔ کھانے کی دعوتوں میں قوم کی بھوک کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
تعلیم پر فوکس نہ صحت پر۔ عدالتیں رنڈی خانہ بن چکی ہیں۔ گورنمنٹ کا ہر ادارہ تنزلی کی گہرائیوں میں گرا ہوا ہے۔ محافظ لوٹ رہے ہیں۔ قوم کا اجتماعی کردار تماش بینوں کی طرح ہے۔
اجتماعی تنزلی میں صاحب بصیرت افراد اور کمپنیز ترقی کرتی رہیں گی۔ قابل افراد اور قابل کمپنیز کیلئے یہ ملک جنت ہے۔ وہ جتنی ترقی کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔
تعلیم پر توجہ دیں۔ ہنر سیکھیں۔ لوگوں کو نفع پہنچانے والے اعمال کریں۔ پیسہ آپکے پیچھے پیچھے آئے گا۔
گورنمنٹ کو ٹیکس دیں۔ اور صدقہ و خیرات اور زکوہ دیتے رہیں۔ #
Heart Transplant and its affects Heart Of Brain The world's first heart Transplant was done in South Africa in 1967 by surgeon Christian Barnard and since then it has be...
دل کا دماغ(Heart Of Brain)
دنیا کا سب سے پہلا دل کا ٹرانسپلانٹ جنوبی افریقہ میں 1967 میں سرجن کرسٹیان برنارڈ نے کیا اور پھر اسکے بعد سے یہ سلسلہ کامیابی سے چل نکلا، مگر ڈاکٹروں کو جس بات نے سب سے زیادہ حیرت میں مبتلا کیا وہ ان مریضوں کی عادات، احساسات اور یادداشت میں ہونے والی وہ تبدیلیاں تھیں جو دل کا ٹرانسپلانٹ کروانے والے لوگوں میں یکلخت رونما ہوئیں. جن مریضوں کو دل کا عطیہ کیا گیا تھا انہوں نے اپنے عطیہ کرنے والوں کی عادتیں اپنانا شروع کر دیں، ایک لڑکی کو نیا دل لگ جانے کے بعد موسیقی سے بہت زیادہ لگاؤ ہو گیا، جبکہ ایک لڑکی کی یاداشت میں اور خوابوں میں ایک حملہ آور نظر آنے لگا، اس پر تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ جس لڑکی کا دل اسکو لگایا گیا تھا وہ قتل ہوئی تھی، تاہم پولیس نے اب دوسری لڑکی کو لگنے والے دل میں محفوظ یاد داشتوں اور خاکوں کی مدد سے قتل ہونے والی لڑکی کے قاتل کو پکڑ بھی لیا اور اسکو سزا بھی دلوا دی. ایک معاملے میں تو ایسا بھی ہوا کہ ایک ان پڑھ مریض نیا دل لگ جانے کے بعد بہت پختہ شعر کہنے لگا.
ڈاکٹروں کےلیئے یہ سب باتیں تئیس سال تک معمہ بنی رہیں یہاں تک کہ 1991 میں ڈاکٹر جے اینڈریو آرمر نے "دل کا دماغ" نامی تحقیقی مقالہ شائع کر دیا. ڈاکٹر اینڈریو نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ دل کے اندر چالیس ہزار نیورونز کا گچھا ہوتا ہے جو اپنے طور پر ایک چھوٹے مگر مکمل اور خودمختار دماغ کا کام کرتا ہے. دل میں موجود اس دماغ کا انسانی کھوپڑی میں موجود دماغ سے پیغام رسانی کا سلسلہ ضرور ہوتا ہے مگر اسکے سوچنے اور عمل کرنے کا معاملہ انسانی کھوپڑی میں موجود دماغ سے قطعا الگ ہوتا ہے. ڈکٹر اینڈریو نے مزید لکھا کہ دل میں موجود چھوٹا دماغ اپنے اندر یاداشت کو محفوظ رکھنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتا ہے اور یہ یادداشت جز وقتی اور کل وقتی ہو سکتی ہے. انسانی طبیعت اور مزاج میں ہونے والی تبدیلیاں اسی چھوٹے دماغ کی بدولت ہوتی ہیں جنکی وجہ سے انسانی جذبات میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے.
ایک اور کتاب "دل کی سوچ" میں تحقیق کاروں نے لکھا ہے کہ انسانی دل کے گرد ایک مقناطیسی میدان ہوتا ہے جسکی لہروں کو انسانی جسم سے کئی فٹ کے فاصلے سے بھی محسوس کیا جا سکتا ہے، جب میں نے یہ بات پڑھی تو مجھے روس کی اس جادوگرنی کے الفاظ یاد آ گئے کہ میرے جادو کا زور کچھ لوگوں پر نہیں چلتا تھا اور مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ان لوگوں کے گرد کوئی طاقتور حفاظتی دیوار ہے، بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ایسے تمام لوگ جن پر میرا زور نہیں چلتا تھا وہ سب کے سب مسلمان تھے۔ خیر تحقیق کاروں نے یہاں تک کھوج لگا لیا کہ دل میں موجود دماغ کی طرف سے انسانی کھوپڑی میں موجود دماغ کو جانے والے احکامات کی تعداد انسانی کھوپڑی میں موجود دماغ کی طرف سے دل اور باقی وجود کو جانے والے احکامات سے زیادہ ہے، مطلب دل انسانی وجود کا ہر لحاظ سے مرکز ٹھہرا.
ایک اور بات جس نے تحقیق کاروں کو حیران کیا وہ یہ تھا کہ دل کے اندر جنم لینے والے بہت سے خیالات زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتے ہیں جبکہ انسانی کھوپڑی میں موجود دماغ میں جنم لینے والے خیالات اکثر و بیشتر زمان مکان کے قیدی ہوتے ہیں. بلکہ اب تو یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہنچ چکی کہ دل دور تک دیکھتا ہے، یعنی دل مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ انسانی دماغ میں یہ صلاحیت دل کے مقابلے میں کم ہے بلکہ میکارتھی نے اپنی تحقیق میں یہاں تک کہا ہے کہ بیشک دل اور دماغ دونوں میں ہی مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت موجود ہے مگر دل یہی کام دماغ سے بہت پہلے کر چکا ہوتا ہے، دماغ کو مستقبل کی خبر دل سے ہی پتہ لگتی ہے.
میں جب یہ ساری باتیں پڑھ رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ قرآن نے قریب قریب پندرہ سو برس قبل بتا دیا تھا کہ حقیقت میں آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں ، اسی لیئے اللہ نے ایمان کو دل میں رکھا، اور شیطان کو انسانی دل تک رسائی نہیں دی، ہم سورۃ الناس میں پڑھتے ہیں کہ شیطان سینوں میں وسوسے ڈالتا ہے، مطلب وہ دل کے آس پاس سینے میں تو کوئی بھی وہم ڈال سکتا ہے مگر وہ دل میں براہ راست کوئی پیغام نہیں چھوڑ سکتا. دل کے بارے میں قرآن نے تفقہہ اور دماغ کے بارے میں عقل کے الفاظ استعمال کیئے ہیں یعنی بصیرت دل سے وابستہ رکھی گئی ہے. ایمان سے محرومی کی صورت میں بھی تالے اور مہر دل پر لگانے کی بات کی ہے قرآن نے، جبکہ انسانی دماغ پر ایسی کوئی قدغن نہیں لگائی گئی. جو اللہ پر ایمان لاتا ہے اللہ اسکے دل کو ہدایت سے منور کرتا ہے، اللہ کے ذکر سے اطمینان بھی دلوں کو نصیب ہوتا ہے دماغ کو نہیں. اللہ رب العزت سکینت بھی مومنوں کے دلوں پر نازل کرتے ہیں اور اللہ نے رحم کو بھی انسانی دل میں ہی رکھ چھوڑا ہے.
نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان انسان کے ساتھ انسان کی رگوں میں موجود خون کے ساتھ دوڑتا ہے ، انسانی جسم میں دو مقامات ہیں دل اور دماغ، دل کو اللہ نے اپنا مسکن بنایا ہے اور پھر اپنے ہی وجود سے عطیہ کی ہوئی روح کا مسکن بھی بنایا ہے اسی لیئے دل تک اور دل والے دماغ تک شیطان کی براہ راست رسائی نہیں ہے، جبکہ دوسری طرف انسانی کھوپڑی میں موجود دماغ ہے جوشیطان کی براہ راست رسائی و تصرف میں بھی ہے. قرآن کو اللہ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر نازل کیا جبریل امین علیہ السلام کے ذریعہ. اور جہاں قرآن و حدیث میں منافقین کے مرض کا ذکر ملتا ہے تو وہ بھی دل میں ملتا ہے، یعنی حق کا انکار دل کو نفاق کی آماجگاہ بنا دیتا ہے.
اللہ رب العزت ہمیں قلب سلیم عطا فرمائے، اسکو نورِ ہدایت سے منور فرمائے اور بغض و نفاق سے پاک فرمائے، آمین
احسن اقبال کہتا تھا۔معشیت کی بہتری کے لیۓ مل کر کام کرنا ضروری ہے۔
تو جناب 18 جماعتیں ملی تو ہوئی ہیں۔اب BJP اور کانگریس کو ملا لیں😂
دل کا دماغ
دنیا کا سب سے پہلا دل کا ٹرانسپلانٹ جنوبی افریقہ میں 1967 میں سرجن کرسٹیان برنارڈ نے کیا اور پھر اسکے بعد سے یہ سلسلہ کامیابی سے چل نکلا، مگر ڈاکٹروں کو جس بات نے سب سے زیادہ حیرت میں مبتلا کیا وہ ان مریضوں کی عادات، احساسات اور یادداشت میں ہونے والی وہ تبدیلیاں تھیں جو دل کا ٹرانسپلانٹ کروانے والے لوگوں میں یکلخت رونما ہوئیں. جن مریضوں کو دل کا عطیہ کیا گیا تھا انہوں نے اپنے عطیہ کرنے والوں کی عادتیں اپنانا شروع کر دیں، ایک لڑکی کو نیا دل لگ جانے کے بعد موسیقی سے بہت زیادہ لگاؤ ہو گیا، جبکہ ایک لڑکی کی یاداشت میں اور خوابوں میں ایک حملہ آور نظر آنے لگا، اس پر تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ جس لڑکی کا دل اسکو لگایا گیا تھا وہ قتل ہوئی تھی، تاہم پولیس نے اب دوسری لڑکی کو لگنے والے دل میں محفوظ یاد داشتوں اور خاکوں کی مدد سے قتل ہونے والی لڑکی کے قاتل کو پکڑ بھی لیا اور اسکو سزا بھی دلوا دی. ایک معاملے میں تو ایسا بھی ہوا کہ ایک ان پڑھ مریض نیا دل لگ جانے کے بعد بہت پختہ شعر کہنے لگا.
ڈاکٹروں کےلیئے یہ سب باتیں تئیس سال تک معمہ بنی رہیں یہاں تک کہ 1991 میں ڈاکٹر جے اینڈریو آرمر نے "دل کا دماغ" نامی تحقیقی مقالہ شائع کر دیا. ڈاکٹر اینڈریو نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ دل کے اندر چالیس ہزار نیورونز کا گچھا ہوتا ہے جو اپنے طور پر ایک چھوٹے مگر مکمل اور خودمختار دماغ کا کام کرتا ہے. دل میں موجود اس دماغ کا انسانی کھوپڑی میں موجود دماغ سے پیغام رسانی کا سلسلہ ضرور ہوتا ہے مگر اسکے سوچنے اور عمل کرنے کا معاملہ انسانی کھوپڑی میں موجود دماغ سے قطعا الگ ہوتا ہے. ڈکٹر اینڈریو نے مزید لکھا کہ دل میں موجود چھوٹا دماغ اپنے اندر یاداشت کو محفوظ رکھنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتا ہے اور یہ یادداشت جز وقتی اور کل وقتی ہو سکتی ہے. انسانی طبیعت اور مزاج میں ہونے والی تبدیلیاں اسی چھوٹے دماغ کی بدولت ہوتی ہیں جنکی وجہ سے انسانی جذبات میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے.
ایک اور کتاب "دل کی سوچ" میں تحقیق کاروں نے لکھا ہے کہ انسانی دل کے گرد ایک مقناطیسی میدان ہوتا ہے جسکی لہروں کو انسانی جسم سے کئی فٹ کے فاصلے سے بھی محسوس کیا جا سکتا ہے، جب میں نے یہ بات پڑھی تو مجھے روس کی اس جادوگرنی کے الفاظ یاد آ گئے کہ میرے جادو کا زور کچھ لوگوں پر نہیں چلتا تھا اور مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ان لوگوں کے گرد کوئی طاقتور حفاظتی دیوار ہے، بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ایسے تمام لوگ جن پر میرا زور نہیں چلتا تھا وہ سب کے سب مسلمان تھے۔ خیر تحقیق کاروں نے یہاں تک کھوج لگا لیا کہ دل میں موجود دماغ کی طرف سے انسانی کھوپڑی میں موجود دماغ کو جانے والے احکامات کی تعداد انسانی کھوپڑی میں موجود دماغ کی طرف سے دل اور باقی وجود کو جانے والے احکامات سے زیادہ ہے، مطلب دل انسانی وجود کا ہر لحاظ سے مرکز ٹھہرا.
ایک اور بات جس نے تحقیق کاروں کو حیران کیا وہ یہ تھا کہ دل کے اندر جنم لینے والے بہت سے خیالات زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتے ہیں جبکہ انسانی کھوپڑی میں موجود دماغ میں جنم لینے والے خیالات اکثر و بیشتر زمان مکان کے قیدی ہوتے ہیں. بلکہ اب تو یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہنچ چکی کہ دل دور تک دیکھتا ہے، یعنی دل مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ انسانی دماغ میں یہ صلاحیت دل کے مقابلے میں کم ہے بلکہ میکارتھی نے اپنی تحقیق میں یہاں تک کہا ہے کہ بیشک دل اور دماغ دونوں میں ہی مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت موجود ہے مگر دل یہی کام دماغ سے بہت پہلے کر چکا ہوتا ہے، دماغ کو مستقبل کی خبر دل سے ہی پتہ لگتی ہے.
میں جب یہ ساری باتیں پڑھ رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ قرآن نے قریب قریب پندرہ سو برس قبل بتا دیا تھا کہ حقیقت میں آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں ، اسی لیئے اللہ نے ایمان کو دل میں رکھا، اور شیطان کو انسانی دل تک رسائی نہیں دی، ہم سورۃ الناس میں پڑھتے ہیں کہ شیطان سینوں میں وسوسے ڈالتا ہے، مطلب وہ دل کے آس پاس سینے میں تو کوئی بھی وہم ڈال سکتا ہے مگر وہ دل میں براہ راست کوئی پیغام نہیں چھوڑ سکتا. دل کے بارے میں قرآن نے تفقہہ اور دماغ کے بارے میں عقل کے الفاظ استعمال کیئے ہیں یعنی بصیرت دل سے وابستہ رکھی گئی ہے. ایمان سے محرومی کی صورت میں بھی تالے اور مہر دل پر لگانے کی بات کی ہے قرآن نے، جبکہ انسانی دماغ پر ایسی کوئی قدغن نہیں لگائی گئی. جو اللہ پر ایمان لاتا ہے اللہ اسکے دل کو ہدایت سے منور کرتا ہے، اللہ کے ذکر سے اطمینان بھی دلوں کو نصیب ہوتا ہے دماغ کو نہیں. اللہ رب العزت سکینت بھی مومنوں کے دلوں پر نازل کرتے ہیں اور اللہ نے رحم کو بھی انسانی دل میں ہی رکھ چھوڑا ہے.
نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان انسان کے ساتھ انسان کی رگوں میں موجود خون کے ساتھ دوڑتا ہے ، انسانی جسم میں دو مقامات ہیں دل اور دماغ، دل کو اللہ نے اپنا مسکن بنایا ہے اور پھر اپنے ہی وجود سے عطیہ کی ہوئی روح کا مسکن بھی بنایا ہے اسی لیئے دل تک اور دل والے دماغ تک شیطان کی براہ راست رسائی نہیں ہے، جبکہ دوسری طرف انسانی کھوپڑی میں موجود دماغ ہے جوشیطان کی براہ راست رسائی و تصرف میں بھی ہے. قرآن کو اللہ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر نازل کیا جبریل امین علیہ السلام کے ذریعہ. اور جہاں قرآن و حدیث میں منافقین کے مرض کا ذکر ملتا ہے تو وہ بھی دل میں ملتا ہے، یعنی حق کا انکار دل کو نفاق کی آماجگاہ بنا دیتا ہے.
اللہ رب العزت ہمیں قلب سلیم عطا فرمائے، اسکو نورِ ہدایت سے منور فرمائے اور بغض و نفاق سے پاک فرمائے، آمین
ٹیپو سلطان کو کس نے شہید کیا :
اوریا مقبول جان صاحب نے دو ہزار چودہ میں ایک کالم لکھا تھا ،جس کا عنوان تھا ،تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی ،اس میں اوریا مقبول جان صاحب نے سکارٹ لینڈ کے دارالحکومت میں واقع ایک میوزیم کا ذکر کیا ہے ،جس میں ٹیپو سلطان کی تلوار یں ،چادریں اور دیگر سامان پڑا ہے ،اوریا صاحب کہتے ہیں ،میں حیران تھا ،یہ سامان برصغیر سے یہاں کیوں لایا گیا ،پھر کہتے ہیں ،در اصل اسکی وجہ یہ تھی کہ ٹیپو سلطان کو جس فوج نے شہید کیا تھا ،اس کے سربراہ کا تعلق سکاٹ لینڈ کے دارالحکومت سے تھا
اس شخص کا نام ڈیوڈ تھا ،یہ 1757 میں ایک تاجر کے گھر پیدا ہوا ،اس نے 1772 میں فوج میں کمیشن حاصل کیا اور 1779 میں اسے کیپٹن کی حیثیث سے ہندوستان بھیج دیا گیا ،اس نے کرنل بیلی کی سربرائی میں ٹیپو سلطان کے والد حید ر علی سے جنگ لڑی ،اس جنگ میں انگریز کو بری طرح شکست ہوئی ،اکثریت ماری گئی ،جو فوج بچی ،وہ قیدی بنا لی گئی ،ڈیو ڈبھی شدید زخمی تھا ،اسےبھی قیدی بنا لیا گیا ،اس نے چار سال قید کاٹی ،پھر آزاد ہو کر انگلستان پہنچا،تو اسے لیفٹینٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی ،اورپھر ر 1790 میں اسے دوبارہ ہندوستان بھیج دیا گیا ،یہاں اس نے ٹیپو سلطان کے ساتھ بہت سی جنگیں لڑیں ،آخری جنگ میں پچاس ہزار سپاہیوں نے حصہ لیا ،برطانوی فوج کے سپاہی چھبیس ہزار تھے ،جبکہ ٹیپوسلطان کے ساتھ تیس ہزار سپاہی تھے ،جب میر صادق کی غداری کی وجہ سے برطانوی فوج قلعے کے کھلےدروازوں سے اندر داخل ہوئی ،تو ٹیپو سلطان کے ساتھ لڑنے والے فرانسیسی سپاہیوں نے اسے خفیہ راستے سے بھاگ جانے کا مشورہ دیا ،تواس پر ٹیپو سلطان نے اپنا تاریخی جملہ کہا ،شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ،یہ چارمئی 1799 تھا ،اسی دن ٹیپو سلطان کو شہید کیا گیا اوراسی شام ٹیپو سلطان کو دفن کر دیا گیا
اوریا صاحب کہتے ہیں
ٹیپو سلطان کے نوادرات کے ساتھ ایک تحریر ہے،جس کے الفاظ یہ تھے ،
ٹیپو سلطان ہندوستان میں برطانیہ کے مفاد کے لیے اتنا بڑا خطرہ ثابت ہوا تھا کہ اسکی موت کی وجہ سے برطانیہ میں قومی سطح پر جشن منایا گیا
اوریا صاحب کہتےہیں
آج ہماری نسل کو اپنی تاریخ سے اس قدر لا علم کر دیا گیا ہے کہ انہیں معلوم ہی نہیں کہ ان کے آبائو اجداد کس جرات و بہادری کے پیکر ہوا کرتے تھے
اوریا صاحب کہتے ہیں
جو قوم برطانیہ میں لکھی ہوئی نظموں اور کتابوں کو پڑھ کر جوان ہورہی ہے ،اسے کیا خبر کہ اس کا ایک ماضی تھا ،جس پر اسے فخر کرنا چاہیے تھا
اوریا صاحب کہتے ہیں
جو قومیں دوسروں کی عظمتوں کی کہانیاں پڑھ کر جوان ہوتی ہیں ،وہ مرعوب ذہن اور مردہ ضمیر لے کر پلتی ہیں ۔
اگر ہم اپنی بہو کی داماد جتنی عزت کرنا شروع کر دیں تو ہمارے گھر جنت جیسے بن سکتے ہیں
داماد جسے ہم جگر کا ٹکرا اور جہیز دیتے ہیں اُس کی بڑھ چڑھ کر عزت کرتے ہیں اور بہو جو ہماری خدمت بھی کرے جہیز بھی لائے اور ہماری نسل کو پروان بھی چڑھائے اس سے جھگڑے اور زیادتی کرتے ہیں
ہے نا یہ بھی ایک المیہ ہمارے معاشرے کا اس لئے عزت کیجئے اور عزت لیجئے
جو ماں باپ یہ چاہتے ہیں کہ سسرال میں جا کر میری بیٹی راج کرے اُن پر یہ بھی لازم ہے کہ اپنی بہو کو عزت دیں
باتیں تھوڑی تلخ ہیں لیکن حقیقت پر مبنی ہیں اس لیے الفاظ کے لیے معذرت
this is justice.
sahiwal main madhali road par wardat.
دس لاکھ کا جہیز
پانچ لاکھ کا کھانا
گھڑی پہنائی
انگوٹھی پہنائی
مکلاوے کے دن کا کھانا
ولیمے کے دن کا ناشتہ
پھر بیٹی کو رخصت کیا تو سب سسرالیوں میں کپڑے بھیجنا
برات کو جاتے ہوئے بھی ساتھ میں کھانا بھیجنا
بیٹی ہے یا کوئی سزا ہے
اور یہ سب تب سے شروع ہو جاتا ہے جب منگنی آ کر دی جاتی ہے کبھی نند آرہی ہے کبھی جیٹھانی آرہی ہے کبھی چاچی ساس آرہی ہے کبھی ممانی ساس آ رہی ہے ٹولیاں بنا کے آتی ہیں اور بیٹی کی ماں ایک مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجائے سب کو اعلی سے اعلی کھانا پیش کرتی ہے اور سب کو اچھے طریقے سے ویلکم کرتی ہے باپ کا ایک ایک بال قرضے میں ڈوب جاتا ہے اور ایسے میں بیس لوگ گھیرے میں لے کے کہتے ہیں جی کتنے بندے برات میں ساتھ لے کر آئے 100یا 200 بندہ تو ہمارے اپنے رشتے دار ہی ہیں اور باپ جب گھر آتا ہے شام کو تو بیٹی سر دبانے بیٹھ جاتی ہے کہ اس باپ کا بال بال میری وجہ سے قرضے میں ہے خدا کا واسطہ ہے آپ کو خدارا ان ہندوؤں کی رسموں کو ختم کر دو تاکہ ہر باپ اپنی بیٹی کو عزت کے ساتھ رخصت کر سکے♥
مصر میں سمندر کنارے پر ایک ماں اپنے بچے کے پیچھے نماز پڑھ رہی ہے۔ اس نے اپنی گاڑی روکی تاکہ وہ نماز نہ چھوڑیں یہ تصویر نہیں ہے جو شمار کرتی ہے، یہ وہ تربیت ہے جو وہ بچے کو دے رہی ہے۔ ہر بچے کی کامیابی یا ناکامی گھر سے شروع ہوتی ہے۔
ایک پڑھا لکھا مرد صرف ایک پڑھا لکھا مرد ہی ہوتا ہے... لیکن ایک پڑھی لکھی عورت ایک پڑھا لکھا خاندان ہوتا ہے...
#فنگر
انسانی جسم کی انگلیوں میں لکیریں تب نمودار ہونے لگتی ہیں جب انسان ماں کے شکم میں 4 ماہ تک پہنچتا ہے یہ لکیریں ایک ریڈیایی لہر کی صورت میں گوشت پر بننا شروع ہوتی ہیں ان لہروں کو بھی پیغامات ڈی۔۔این۔۔اے دیتا ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ پڑنے والی لکیریں کسی صورت بھی اس بچے کے جد امجد اور دیگر روئے ارض پر موجود انسانوں سے میل نہیں کھاتیں گویا لکیریں بنانے والا اس قدر دانا اور حکمت رکھتا ہے کہ وہ کھربوں کی تعداد میں انسان جو اس دنیا میں ہیں اور جو دنیا میں نہیں رہے ان کی انگلیوں میں موجود لکیروں کی شیپ اور ان کے ایک ایک ڈیزائن سے باخبر ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار ایک نئے انداز کا ڈیزائن اس کی انگلیوں پر نقش کر کے یہ ثابت کرتا ہے ۔۔۔۔۔
کہ ہے کوئ مجھ جیسا ڈیزائنر ؟؟؟
کوئ ہے مجھ جیسا کاریگر ؟؟؟
کوئ ہے مجھ جیسا آرٹسٹ ؟؟؟
کوئ ہے مجھ جیسا مصور ؟؟؟
کوئ ہے مجھ جیسا تخلیق کار ؟؟؟
حیرانگی کی انتہاء تو اس بات پر ختم ہوجاتی ہے کہ اگر جلنے زخم لگنے یا کسی وجوہات کی بنیاد پر یہ فنگر پرنٹ مٹ بھی جائے تو دوبارہ ہو بہو وہی لکیریں جن میں ایک خلیے کی بھی کمی بیشی نہیں ہوتی ظاہر ہو جاتی ہیں۔۔۔۔
پس ہم پر کھلتا ہے کہ پوری دنیا بھی جمع ہو کر انسانی انگلی پر کسی وجوہات کی بنیاد پر مٹ جانے والی ایک فنگر پرنٹ نہیں بنا سکتی
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے
وہی خدا ہے وہی خدا ہے وہ ہی خدا ہے
مجھے کسی کتاب میں لکھا یہ جملہ بار بار یاد آتا ہے کہ
"جو شرافت کسی ایک اوباش شخص کا راستہ نہ روک سکے، وہ شرافت نہیں بیماری ہوتی ہے، بزدلی، کمزوری اور منافقت ہوتی ہے"
🤣🤣
He promissed to pray tomorrow ,today his life ends.😢
.
Genral Hameed Gull😍😍
Click here to claim your Sponsored Listing.
Videos (show all)
Category
Contact the public figure
Telephone
Website
Address
Sahiwal
57000
Iqbal Nagar Post Office Khas , City Chicha Watni, District Sahiwal
Sahiwal, 57200
This page is created to promote new young writers/poets.